شہزاد احمد کی غزلیں نظمیں

شہزاد احمد کی غزلیں نظمیں
1-
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اُس کی

2-
ملے بھی وہ تو رہا ذکر اس سے موسم کا
خبر نہیں، مجھے آئے گا حال کب کہنا

3-
یہ نور نور ہے، جاگیر تو کسی کی نہیں
الجھ پڑا ہوں میں خورشید سے، دِیا ہو کر

4-
پکارا کیے دوستو دوستو
کہاں کھو گئے ہو کہو دوستو

یُونہی دُور سے مت بُلاتے رہو
کبھی آن کر بھی ملو دوستو

سحر کا ستارہ چمکنے لگا
گھڑی دو گھڑی سو رہو دوست

وہی لمحے آنکھوں میں آنسو بنے
دل و جاں کی راحت تھے جو دوستو

ہوا ہے زمانے کی بگڑی ہوئی
مرے دل میں بیٹھے رہو دوستو

5-
رات پھر جاگنا پڑا جیسے
آنکھ میں رنگ ہیں حنا جیسے

بند ہیں یوں دلوں کے دروازے
کوئی آیا یہاں نہ تھا جیسے

شب کی تنہائیوں میں یاد اس کی
جھلملاتا ہوا دیا جیسے

تپ رہی ہیں خیال کی گلیاں
چل رہا ہوں برہنہ پا جیسے

دل کی باتوں میں آ کے پچھتائے
سانپ پر پاؤں آ گیا جیسے

قطعہ
مطمئن ہوں ہوائے زنداں سے
گھر سی پائی یہاں فضا جیسے
میں تو پہلے ہی تھا قفس پروَر
خلوتی دل بھی ہو رہا جیسے

قطعہ
یُوں کھڑے ہیں طویل قامت پیڑ
کبھی آیا نہ زلزلہ جیسے
یُوں تمنائیں دل میں رہتی ہیں
نہ کبھی سَیلِ غم اُٹھا جیسے

قطعہ
شہر میں یُوں اُداس پھرتا ہوں
کوئی میرا نہیں رہا جیسے
خلق کی بے نیازیاں شہزاد
مہرباں مل گئے خدا جیسے

6-
بُنتی رہی وہ اک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے

7-
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے

8-
آخر کسی کشش نے انہیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک وہ آئے تھے، آ کر پلٹ گئے

9-
جو لکھیں گے اب، اس کا تلخ ذائقہ ہوگا
ہم بھی انگلیاں اپنی زہر میں ڈبو لیں گے

10-
یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب، جھوٹ کیسے بولیں گے
11-
کوئی رُت، کوئی موسم ہو، پگھلتا ہی نہیں
دل کہاں، سینے میں پتھر ہے دھڑکنے والا


12-
چہرہ جسے پلٹ کے بھی میں دیکھتا نہیں
شاید عزیز ہے مجھے سارے جہان سے

13-
چیزیں تھیں کیا کہ مجھ کو چکا چوند کر گئیں
میں کچھ خرید کر نہیں نکلا دکان سے

14-
وہ جا چکا تو پلٹ آئی میری بینائی
وہ جانتا تو مجھے مڑ کے دیکھتا پھر سے

15-
ہم اس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، ملیں گے نہیں

16-
لذت اور یکتائی کا اک جھونکا آیا ۔۔ بیت گیا
پھر سے اپنے اپنے دکھ ہیں، اپنی اپنی ذاتیں ہیں

17-
دوری نے سکھائے اسے ڈھب اور طرح کے
چوما تو لگے مجھ کو وہ لب اور طرح کے

18-
مشکل ہے کہ اندازہ ہو اس شخص کا شہزادؔ
الطاف جداگانہ ۔ غضب اور طرح کے

19-
روز نئے دکھ دیتی ہے دنیا شہزادؔ
اور مجھے ہر درد پُرانا لگتا ہے

20-
تو نے خود ترکِ تعلق کی قسم کھائی تھی
اور ہم نے تو فقط بات نباہی تیری
21-
اب ترا ذکر کروں بھی تو حوالہ کیا دوں
اے گئی عمر! ترا نام نہ پوچھا میں نے

22-
میں آئینہ تھا ٹوٹ گیا تیرے ہاتھ سے
کیوں تیرے ہاتھ میں نہ چبھیں میری کرچیاں

23-
ابھی گزرا نہیں رخصت کا لمحہ
وہ ساعت آنکھ میں ٹھہری ہوئی ہے

24-
ابھی لوٹا نہیں دن کا مسافر
اندھیرا ہو چکا، کھڑکی کھلی ہے

25-
مکیں شہزادؔ پیاسے مر رہے ہیں
در و دیوار پر کائی اُگی ہے

26-
سیلاب گو ہمارے لیے اجنبی نہ تھے
موسم جو اب ہیں شہر میں، پہلے کبھی نہ تھے

دیکھا تو اپنے شہر کی رونق دوچند تھی
جن کی ہمیں تلاش تھی، وہ لوگ ہی نہ تھے

27-
بلا کا شور ہے خالی مکاں کے اندر بھی
کوئی تو رہتا ہے اس آسماں کے اندر بھی

28-
اے برق کی مانند گزرتے ہوئے لمحو
کیا آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہیں دو گے

29-
دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر
آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

30-
دو دن بھی کھل کے بات نہ شہزادؔ ہو سکی
دو سال ایک ساتھ رہے ہم کلاس میں

31-
کوئی چہرہ ترے قابل نہیں ہونے پاتا
تیرے آئینے میں ہر شکل بگڑ جاتی ہے

32-
میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجیے مجھے

33-
کسی بھی حال میں پہنچے تو ہیں کنارے پر
یہی بہت ہے کہ احسانِ ناخدا نہ لیا
34-
خیال آیا، روانہ ہوئے سفر کے لیے
نہ ہم نے رخت ہی باندھا نہ آب و دانہ لیا

35-
بے نیازانہ گزرتا ہوں چمن سے لیکن
پتہ پتہ مری جانب نگراں رہتا ہے

36-
وہ اگر ساتھ ہو، پہچانے نہ جائیں رستے
گھر ہی موجود نہ ہو، اس کو اگر گھر لاؤں

37-
تمام عمر رہیں زیرِ لب ملاقاتیں
نہ اس نے بات بڑھائی نہ ہم نے ہونٹ سیے

38-
یاد آئے جسے دیکھ کے شہزادؔ بہت کچھ
وہ کون ہے یہ ذہن میں آتا نہیں پھر بھی

39-
کتنی چھوٹی سی میری خواہش ہے
میں نہیں چاہتا بڑا ہو جاؤں

40-
خود سے بھی کوئی رابطہ نہ رہے
میں ترا حرفِ مدعا ہو جاؤں

41-
دلوں میں تری یاد سی رہ گئی
یہی ایک منزل کڑی رہ گئی

اُڑا لے گئی دھوپ پھولوں کی
چمن میں صبا چیختی رہ گئی

اگرچہ وہ صورت ستارہ نہ تھی
دلوں میں مگر روشنی رہ گئی

نظر کے خرابے نہ دیکھے گئے
یہی چیز تھی دیدنی رہ گئی

بہت چاند کو دُکھ اُٹھانے پڑے
مگر بے اثر چاندنی رہ گئی

نہیں دل میں کچھ حسرتوں کے سوا
یہی ایک محفل جمی رہ گئی

کہاں پھر یہ ہنگامہء رنگ و بُو
فراقت گھڑی دو گھڑی رہ گئی

قطعہ
جلاتے رہے ہم لہو کے چراغ
مگر تیرگی تیرگی رہ گئی
زمانہ اندھیروں میں ڈوبا رہا
چراغوں تلے رَوشنی رہ گئی

قطعہ
نہ پایا کسی نے کسی کا پتہ
نظر ہر طرف ڈھونڈتی رہ گئی
نہ پھر کوئی آیا ہماری طرف
نگاہِ طلب ڈھونڈتی رہ گئی

42-
اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اُڑانے والے

یہ الگ بات میسر لبِ گویا نہ ہوا
دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے

کسی منزل کی طرف کوئی قدم اُٹھ نہ سکا
اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے

دل سا وَحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو
ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے

دن کی کجلائی ہوئی دھوپ میں کیا دیکھتے ہیں
شام ہوتے ہی پریشاں نظر آنے والے

جلوہء حسن سزاوارِ نظر ہو نہ سکا
کچھ نہیں دیکھ سکے آنکھ اُٹھانے والے

یادِ ایّام کے دروازے سے مت جھانک مجھے
آنکھ سے دُور نہ ہو دل میں سمانے والے

تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحات
دل کی تنہائی کا احساس دلانے والے

انہی جھونکوں سے ہے شہزاد چمک آنکھوں میں
یہی جھونکے ہیں چراغوں کو بجھانے والے

43-
ہزار موجہء سیلاب پُر خطر ہی سہی
جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی

کبھی یہاں بھی چمن تھا یہاں بھی رونق تھی
گزر رہے ہو تو اس سَمت اِک نظر ہی سہی

نہ منزلوں کو تمنا نہ راستوں کی خبر
نکل پڑے ہیں تو پھر کوئی رہگزر ہی سہی

کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی

کبھی تو لے ہی اُڑوں گا قفس کو ساتھ اپنے
ہنوز مجھ کو تمنائے بال و پَر ہی سہی

تمہاری آنکھ میں کیفیتِ خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی

زمانہ تِیرہ و تاریک ہے ــ مگر مَیں کون؟
مری چمک سے اُجالا نگر نگر ہی سہی

بہت اُداس ہے ہر ایک رہگزر شہزادؔ
کدھر کو جائیں ہم آمادہء سفر ہی سہی
44-
شہر میں سب محفلیں برہم ہوئیں
اب کہیں آنا جانا نہیں
دل کہ جسے دعویٰ خدائی کا ہے
ایک ہُنر میں بھی یگانہ نہیں

45-
شعر غالبؔ کے گنگناتے رہو
اور خود قافیے ملاتے رہو

سر دُھنو مدحِ اہلِ دانش میں
اپنی دُنیا میں خاک اُڑاتے رہو

جاگتے خواب دیکھتے جاؤ!
آپ اپنے فریب کھاتے رہو

نہ چلو موجہء ہَوا کے ساتھ
دُور سے وقت کو بُلاتے رہو

بیٹھ کر اپنے آشیانوں میں
اُڑنے والوں پہ مسکراتے رہو

کرو بے نُور محفلِ اِمروز
تُربتوں پہ دِیے جلاتے رہو

جینے والوں سے مُوند کر آنکھیں
مرنے والوں کے گیت گاتے رہو

تیشہء کوہکُن سے کام نہ لو!
آستانوں پہ سر جھکاتے رہو


46-
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو
اپنے ہی خوں سے فروزاں کو تنہائی کو

اب یہ عالم ہے کہ بیتی ہوئی برساتوں کی
اپنے ہی جسم سے بُو آتی ہے سودائی کو

پاس پہنچے تو بکھر جائے گاافسوں سارا
دُور ہی دُور سے سنتے رہو شہنائی کو

کسی زنداں کی طرف آج ہوا کے جھونکے
پا بہ زنجیر لیے جاتے ہیں سودائی کو

کس میں طاقت ہے کہ گلشن میں مقید کر لے
اس قدر دور سے آئی ہو ئی پُروائی کو

وہ دہکتا ہوا پیکر وہ اچھوتی رنگت
چُوم لے جیسے کوئی لالہء صحرائی کو

بہت آزردہ ہو شہزادؔ تو کھل کر رو لو
ہجر کی رات ہے چھوڑو بھی شکیبائی کو

47-
کسی دیار کسی دشت میں صبا لے جا
مَیں مُشتِ خاک ہوں مجھ کو کہیں اُڑا لے جا

گُلوں کی باس نسیمِ سَحر سے کہتی ہے
کہیں قیام نہ کر مجھ کو جا بجا لے جا

ذرا سی دھوپ سے پہلو میں آنچ اُٹھتی ہے
میں برگِ خُشک ہوں موجِ فنا، بہا لے جا

خبر نہیں کہ کہاں شب کی ظلمتیں مل جائیں
دیارِ نُور میں بھی مشعلیں جلا لے جا

کہیں فضائے چمن کو نظر نہ لگ جائے
گلوں کو خوب بھی کہہ عیب بھی نکالے جا

کبھی تو جلوہء جاناں کی آگ بھڑکے گی
نگاہِ شوق تُو سانپ آستیں میں پالے جا

تھکن ہزار سہی حوصلہ نہ ہار ابھی
قدم اُٹھیں نہ اُٹھیں دل مگر سنبھالے جا

یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں بیٹھ، کمند آسماں پہ ڈالے جا

ہُوا زمانہ کہ شہزادؔ مَیں بھی تنہا ہوں
مجھے انجمنِ شوق میں ذرا لے جا

48-
حلاوت ہے بہت انکار میں بھی
زباں سے آپ لیکن کچھ کہیں بھی

نئے چہروں سے جی گھبرا رہا ہے
غنیمت تھیں پُرانی صحبتیں بھی

شبِ غم چاند بھی گہنا گیا
لرز اُٹھی ہیں تاروں کی لویں بھی

رَگوں میں گرم خوں ٹھنڈا تو ہولے
ز خود مٹ جائیں گی یہ الجھنیں بھی

ہمارے کان پتھر ہو چلے ہیں
کوئی آواز آئے تو سُنیں بھی

گُلوں کو چھو کے زندہ رہنے والو!
بڑی لذت ہے نوکِ خار میں بھی

کبھی خلوت کدے میں جھانک کر دیکھ
یہاں سُونی پڑی ہیں محفلیں بھی

کہاں عالم کی پہنائی کہاں ہم
مگر ملتی نہیں اپنی حدیں بھی

ابھی ہے منزل دُور شہزاد
بہاریں ساتھ لے جائیں ہمیں بھی

49-
شاملِ نقشِ کارواں ہیں ہم
اب فقط یادِ رفتگاں ہیں ہم

ہم وہ آنسو کہ جو چھلک نہ سکے
یعنی اِک سعیِ رائیگاں ہیں ہم

جس سے کل زندگی میں گرمی تھی
اب اُسی آگ کا دُھواں ہیں ہم

کہہ رہے ہیں بُجھے بُجھے آنسو
یادگارِ دلِ تپاں ہیں ہم

ڈس رہی ہے طویل تنہائی
جی رہے ہیں کہ سخت جاں ہیں ہم

آج یُوں دیکھتے ہیں گلشن کو
جیسے پروردہء خزاں ہیں ہم

غنچے غنچے کے مُنہ کو تکتے ہیں
نو گرفتارِ گلستاں ہیں ہم

گرچہ اِک تیرگی ہیں ہم لیکن
کچھ ستاروں کے درمیاں ہیں ہم

دیکھنے میں ہیں گرچہ شمعِ خموش
جگمگائیں تو کہکشاں ہیں ہم

سِمٹ آئیں تو ایک قطرہء اشک
پھَیل جائیں تو بیکراں ہیں ہم

ہم کہ ارزاں ہوئے سرِ بازار
نہ ملیں تو بہت گراں ہیں ہم

غور سے سُن رہے ہیں ہر آواز
غنچے غنچے کے ہم زباں ہیں ہم

کل جہاں تذکرے تمہارے تھے
اب وہیں زیبِ داستاں ہیں ہم

لے اُڑا ہے کوئی خیال ہمیں
ہم وہاں بھی نہیں جہاں ہیں ہم

اب ہمیں منزلوں کا ہوش نہیں
مَوج میں آئے ہیں رَواں ہیں ہم

دل کی دھڑکن بھی سو چکی شہزادؔ
کوئی آواز دو کہاں ہیں ہم
50-
اس مروت پہ محبت کا گماں کیا ہوگا
تو اگر دیکھ بھی لے دل نگراں کیا ہوگا

وہ فسانہ کہ جسے کہہ نہ سکے آنسو بھی
خشک ہونٹوں کے تبسم سے بیاں کیا ہوگا

ہم جہاں بیٹھے ہیں وہ شہر بھی ویرانہ ہے
ہم جہاں خاک اُڑائیں گے وہاں کیا ہوگا

اَب تو یوں چُپ ہیں کہ جیسے کبھی روئے ہی نہ تھے
اَب جو روئیں گے تو اندازِ فغاں کیا ہوگا

51-
کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا
مثالِ ابر چلا کارواں بہاروں کا

نہ مجھ سے پوچھ شبِ ہجر دل پہ کیا گزری
یہ دیکھ حال ہے کیا میرے غمگساروں کا

شبِ سیاہ کے لمحے گزار لینے دو
گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا

52-
شہزادؔ کسی کھوئی ہوئی یاد کی مانند
کل سایہء دیوارمیں چپ چاپ کھڑے تھے

آوارگیاں چاند ستاروں کے جہاں میں
وہ دن کہ زمیں پر کبھی پاؤں نہ پڑے تھے