ابن انشا کی غزلیں دلِ وحشی اور چاند نگر سے انتخاب

ابن انشا کی غزلیں دلِ وحشی اور چاند نگر سے انتخاب

فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو
جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے، جبیں کا لکھا مٹا کے بیٹھو

جنابِ انشاؔ یہ عاشقی ہے جنابِ انشاؔ یہ زندگی ہے
جنابِ انشاؔ جو ہے یہی ہے، نہ اس سے دامن چھڑا کے بیٹھو


سمیٹیں کاروبارِ عشقِ خوباں
بہت نقصاں ہوا ہے اے دل اے دل

چلیں اب کوئی تازہ غم خریدیں
کہ ہر غم کی دوا ہے اے دل اے دل


اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اُس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے


رات کی نیند اُڑا دیتے ہیں
چاند سے چہرے والے لوگ


پھر شام ہوئی پھر دیپ جلے


روپ کی برکھا پورب پچھم اُتر دَکھن برسے گی

آنکھ ملے آنسو بھر آئیں
ہم یہ تاب کہاں سے لائیں


فرض کریں ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں، جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے میخانے ہوں


سیدھے مَن کو آن دبوچیں، میٹھی باتیں سُندر بول
میرؔ، نظیرؔ، کبیرؔ اور انشاؔ سارا ایک گھرانا ۔ ہُو

10۔
بستی میں دیوانے آئے
چھب اپنی دکھلانے آئے
دیکھ ترے دَرشن کے لوبھی
کر کے لاکھ بہانے آئے
پیر پروہت مُلا مکھیا
بستی کے سب سیانے آئے
طعنے، مہنے، اینٹیں، پاتھر
ساتھ لیے نذرانے آئے

11۔
ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا ترا، اے حُسنِ بے پروا ترا

اے بے دریغ و بے اماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا ترا؟ دامن کبھی تھاما ترا

بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا، رُسوا ترا، شاعر ترا، انشاؔ ترا

12۔
انشاؔ جی اُٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

اس دل کے دریدہ دامن میں، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا

13۔
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ

پینا پلانا عین گنہ ہے، جی کا لگانا عین ہوس
آپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ

اے سخیو اے خوش نظرو یک گُونہ کرم خیرات کرو
نعرہ زناں کچھ لوگ پھریں ہیں صبح سے شہرِ نگار کے بیچ

خار و خس و خاشاک تو جانیں، ایک تجھی کو خبر نہ ملے
اے گلِ خُوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ

منتِ قاصد کون اُٹھائے شکوہء درباں کون کرے
نامہء شوق غزل کی صورت چھپنے دو اخبار کے بیچ

14۔
اِنشاؔ صاحب پو پھٹتی ہے تارے ڈوبے صبح ہوئی
بات تمہاری مان کے ہم تو شب بھر بے آراہم ہوئے

15۔
اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں کہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

انشاؔ سے ملو اس سے نہ روکیں، ولیکن
اس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی؟

مشہور ہے ہر بزم میں اِسی شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام میاں کی

انشاؔ کی غزل سُن لو پہ رَنجور نہ ہونا
دیوانہ ہے دیوانے نے اِک بات بیاں کی

16۔
درد کا کہنا چیخ ہی اُٹھو، دل کا کہنا، وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزت داروں کا

انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو اُن پیاروں کا

17۔
 ہم ان سے اگر مل بیٹھتے ہیں‘ کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ اُن کا اشارا ہوتا ہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں‘ دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر؟
یا شامِ غریباں کا جگنو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لیے پر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک نہ مل سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارا ہوتا ہے

دفتر سے اُٹھے‘ کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے‘ کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے

18۔
زمیں پہ سبزہ لہک رہا ہے‘ فلک پہ بادل دھواں دھواں ہے
مگر جو دل کے مزاج پوچھو‘ ہمارے دل کا عجب سماں ہے

درونِ سینہ غم جدائی کا داغ ہے اور کہاں کہاں ہے
اگر یہی بخت عاشقاں ہے فغاں ہے اے دوستو فغاں ہے

نہ ایسے آنے کی آرزو تھی نہ ایسے جانا ہماری خو تھی
ہمارے دل کی بھی آبرو تھی مگر وہ پہلا سا دل کہاں ہے

خراب دل کی خراب باتیں اُداس دن بے قرار راتیں
جو درد ہے دردِ جاں ستاں ہے جو سوز ہے سوزِ رائیگاں ہے

میں تیری مانند وُسعتِ دہر میں اکیلا سا پھر رہا ہوں
فضائے صحرا کے ابر پارے کہیں پہ منزل کا بھی نشاں ہے

نہ قافلہ چاند کا ہوَیدا، نہ منزلِ نورِ صبح پیدا
وہی گزر گاہِ کہکشاں ہے، وہی غبارِ ستارگاں ہے

نہ ایسے آنے کی آرزو تھی نہ ایسے جانا ہماری خُو تھی
ہمارے دل کی بھی آبرو تھی مگر وہ پہلا سا دل کہاں ہے

تم اس پہ حیراں ہو خوش خیالو! پرانے وقتوں کے نجد والو
وگرنہ ہم کو بھی کچھ گماں ہے، وگرنہ اپنی بھی داستاں ہے

نہ ان کے چہرے کی دھوپ دیکھی نہ ان کے آنچل کی چھاؤں پائی
رُتوں سے محروم جا رہے ہیں عجب نصیبِ بلاکشاں ہے

تم اپنے انشاؔ کی راہ و منزل کو جانتے ہو پھر اس سے مطلب
وہ تنہا تنہا رواں دواں ہے کہ ہمرہِ اہلِ کارواں ہے

19۔
سانحہ ہم پہ یہ پہلا ہے مری جاں کوئی؟
ایسے دامن سے ملاتا ہے گریباں کوئی؟

قیس صاحب کا تو اِس غم میں عجب حال ہوا
اپنے رستے میں نہ پڑتا ہو بیاباں کوئی

ہم نے اپنے کو بہت دَیر سنبھالا ہوتا
آ ہی نکلے اگر آنسو سرِ مژگاں کوئی؟

یارو اس درد محبت کی دوا بتلاؤ
ڈھونڈ لیں گے غم دوراں کا تو دَرماں کوئی

یک نظر دیکھنا، رم کرنا، ہوا ہو جانا
اُن سے چُھوٹی ہے بھلا غزالاں کوئی؟

ہم کسی سمت بھی نکلے ہوں وہیں جا نکلیں
ہم سے بھولی ہے رہِ کوچۂ جاناں کوئی؟

’اب تری یاد میں رؤئیں گے نہ حیراں ہوں گے‘
اُن سے پیماں ہے کوئی، دل سے ہے پیماں کوئی

دوستو دوستو اس شخص کو جا کر سمجھاؤ
اپنے انشاؔ کے سنبھلنے کا بھی ساماں کوئی

یہ بھی ہم لوگوں کی وَحشت پہ ہنسا کرتا تھا
آیا اس خانۂ ویراں میں بھی مہماں کوئی

20۔
ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں پھر وہ رُت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسیں اپنی سی برسات کہاں

چاند نے کیا کیا منزل کرلی نکلا، چمکا ڈوب گیا
ہم جو آنکھ جھپک لیں سو لیں اے دل ہم کو رات کہاں

پیت کا کاروبار بہت ہے اب تو اور بھی پھیل چلا
اور جو کام جہاں کے دیکھیں فرصت دیں حالات کہاں

قیس کا نام سنا ہی ہوگا ہم سے بھی ملاقات کرو
عشق و جنوں کی منزل مشکل سب کی یہ اوقات کہاں

21۔
یوں تو ہے وحشت جزوِ طبیعت ، ربط انہیں کم لوگوں سے
اب تو برس دن بعد بھی انشاؔ ملتے نہیں ہم لوگوں سے

کیوں تجھے ضد ہے وضع نبھائیں ، چاند نہ دیکھیں عید کریں
چھپ نہ سکے گا اے دلِ بریاں دیدۂ پرنم لوگوں سے

کیا ہوا خشت اُٹھا دے ماری یا سر دامن نوچ لیا
تم تو دوانے اس کے بہانے ہو چلے برہم لوگوں سے

عشق کریں تو جنوں کی تہمت ‘ دُور رہیں تو تو ناراض
اب یہ بتا ہم تجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے

22۔
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیماں ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبرا انبرا ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں کہ لیتے ہیں
انشاؔجی ہم لوگ کہاں اور میرؔ کا رنگِ کلام کہاں

23۔
اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہان کا علم پڑھے، کوئی میر سا شعر کہاں تم نے؟

24۔
جنگل جنگل شوق سے گھومو، دشت کی سیر مدام کرو
انشاؔ جی ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو

اشکوں سے اپنے دل کی حکایت دامن پر ارکام کرو
عشق میں جب یہی کام ہے یار ولے کے خدا کے نام کرو

کب سے کھڑے ہیں برمیں خراجِ عشق لیے سرِ راہگزر
ایک نظر سے سادہ رخو ہم سادہ دلوں کو غلام کرو

دل کی متاع تو لوٹ رہے ہو، حسن کی دی ہے زکات بھی؟
روزِ حساب قریب ہے لوگو کچھ تو ثواب کا کام کرو

میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشا‘ؔ میرؔ کی تبعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرو اب، صبح کو رو رو شام کرو

25۔
دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسن طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جان ہوتا ہے

ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں، جو پنہاں ہوتا ہے

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا‘ پھر سہو کا سجدہ کر لے گا
اِس دل پہ بھروسہ کون کرے، ہر روز مسلماں ہوتا ہے

وہ درد کہ اس نے چھین لیا، وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب بھی مرا مہماں ہوتا ہے

26۔
پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن، ہم نے پہلے دن ہی تھا کہا نا سجن
تم ہی مجبور ہو، ہم ہی مختارہیں، خیر مانا سجن یہ بھی مانا سجن

اب جو ہونے کے قصے سبھی ہو چکے، تم ہمیں کھو چکے ہم تمہیں کھو چکے
آگے دل کی نہ باتوں میں آنا سجن، کہ یہ دل ہے سدا کا دِوانا سجن

یہ بھی سچ ہے نہ کچھ بات جی کی بنی، سونی راتوں میں دیکھا کیے چاندنی
پر یہ سودا ہے ہم کو پرانا سجن، اور جینے کا اپنا بہانا سجن

شہر کے لوگ اچھے ہیں ہمدرد ہیں، پر ہماری سنو ہم جہاں گرد ہیں
داغِ دل نہ کسی کو دکھانا سجن، یہ زمانہ نہیں وہ زمانہ سجن

اس کو مدت ہوئی صبر کرتے ہوئے، آج کوئے وفا سے گزرتے ہوئے


پوچھ کر اس گدا کا ٹھکانہ سجن،اپنے انشاؔ کو بھی دیکھ آنا سجن

27۔
چلو انشاؔ کے پاس چلیں بیٹھیں سنیں گیت منوہر پریم بھرے
جنہیں سن لیں تو من کو مسوس مریں سبھی گوپیاں گوکل کے بَن میں

28۔
اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

ہم اہلِ محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہلِ محبت کو آزارِ جوانی ہے!!

یاں چاند کے داغوں کو سینے میں دباتے ہیں
دنیا کہے دیوانہ یہ دنیا دیوانی ہے

اک بات مگر ہم بھی پوچھ لیں جو اجازت!
کیوں تم نے یہ غم دے کے پردیس کی ٹھانی ہے

سکھ لے کے چلے جانا، دکھ دے کے چلے جانا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہدیۂ دلِ مفلس کا ،چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں، انشاء کی نشانی ہے

29۔
خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور کے چھوڑا ہات
ہم کو ڈبو کر خود ساحل پر جا نکلے ہو اچھی بات

شام سے لے کر پو پھٹنے تک کتنی رُتیں بدلتیں ہیں
آس کی کلیاں یاس کی پت جھڑ صبح کے اشکوں کی برسات

اپنا کام تو سمجھانا ہے اے دل رشتے توڑ کے جوڑ
ہجر کی راتیں لاکھوں کروڑوں‘ وصل کے لمحے پانچ یا سات

ہم سے ہمارا عشق نہ چھینو، حسن کی ہم کو بھیک نہ دو
تم لوگوں کے دُور ٹھکانے‘ ہم لوگوں کی کیا اوقات

روگ تمہار اور ہے انشاؔ بیدوں سے کیوں چہل کرو
درد کے سودے کرنے والے‘ درد سے پا سکتے ہیں نجات؟

30۔
کون آیا مرے پہلو میں یہ خواب آلود
زلف برہم کئے ، باچشم حجاب آلود
 
اب موت گوارا نہ ترا ہجر گوارا
ہم منتظر آمدِ فردا ہی رہیں گے

تو خوب سمجھتا ہے نگاہوں کی زباں کو
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کچھ نہ کہیں گے

31۔
انشاؔ جی چھبیس برس کے ہو کے یہ باتیں کرتے ہو؟
انشاؔ جی اس عمر کے لوگ تو بڑے سیانے ہوتے ہیں

32۔
رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانے تھے
دُھندلے دُھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے
 
ضدی، وحشی، الھڑ، چنچل، میٹھے لوگ، رسیلے لوگ
ہونٹ اُن کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے
 
وحشت کی عنوان ہماری، ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، اِنشاؔ جی دِیوانے تھے
 
یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے
 
ہم کو ساری رات جگایا، جلتے بجھتے تاروں نے
ہم کیوں اُن کے دَر پر اُترے، کتنے اور ٹھکانے تھے

33۔
شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی؟
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی؟
 
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی
 
نالہ یوں رسا نہ ہوتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
 
چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
 
دوستو! عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا در گزر نہیں ہوتی
 
بیقراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
 
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
 
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

34۔
لکھیں گے اُسی ٹھاٹ سے نظمیں، کبھی غزلیں
ہاں آج سے لوگوں کو دِکھایا نہ کریں گے

35۔
ہو جائیں گے جا کر کہیں پردیس میں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے

اس شہر میں آئندہ نہ دیکھیں گے وہ ہم کو
’’کیا کیا نہ کیا عشق میں، کیا کیا نہ کریں گے!‘‘