ذہن گلزار ہو گیا ہوگا ۔ عبدالحمید عدم

ذہن گلزار ہو گیا ہوگا ۔ عبدالحمید عدم

ذہن گلزار ہو گیا ہوگا ۔ عبدالحمید عدم


ذہن گلزار ہو گیا ہوگا
باغباں یار ہو گیا ہوگا

بات سرکار بن گئی ہوگی
کام سرکار ہو گیا ہوگا

پھول اس زلف سے جدا ہو کر
سخت بیمار ہو گیا ہوگا

لوٹتا کب تھا قیس گھبرا کر
شہر بیدار ہو گیا ہوگا

قافلہ اب نظر نہیں آتا
تیز رفتار ہو گیا ہوگا

ایک ارماں تو تھا عدم دل میں
سوکھ کر خار ہو گیا ہوگا

عبدالحمید عدم