زخم امید از جون ایلیا

Zakhm-e-Umeed زخم امید by Jaun Elia PDF

جون کی شاعری ہنسنے کھیلنے یا دل بہلانے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو احساسِ ذات کی کرچیاں اور ادراک کے وہ گھاؤ ہیں جو صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں سجھائے یا سمجھائے نہیں جا سکتے۔ کیونکہ شاعری احساس سے ہمکلام ہونے کا نام ہے نا کہ وضاحت و توضیح کی کھتونیوں کا: 
آگہی نے کیا ہو چاک جسے
وہ گریباں بھلے سِلے بھی کہاں

یہ کرچیاں اور گھاؤ جب ذات میں پیوست ہو جائیں تو انسان خون تھوکنے اور زخم کریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ خون تھوکنے کی داستان جس شدت اور جنون کے ساتھ جونؔ کی شاعری کا حصہ بنی ہیں اس کے معاصرین کے ہاں اس کا تذکرہ کم کم ہی ملتا ہے۔ 

خون کی تھوکن ہے جو تمہاری، کیا ہے وہ اک پیشہ کہ نہیں
تم ہو مسیحاؤں کے حق میں قاتل اندیشہ کہ نہیں
فن جو جز فن کچھ بھی نہ ہو وہ اک مہلک خوش باشی ہے
کارِ سخن پیشہ ہے تمہارا جو خونی عیاشی ہے
(جون تمہیں یہ دور مبارک)

تھوکا ہے میں نے خون ہمیشہ مذاق میں
مرا مذاق آپ ہمیشہ اُڑائیے

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ واہ کیجیے

 گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے
-
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
-
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے

جون ایلیا کی غزلوں کا مجموعہ زخمِ امید