آوارہ گرد کی ڈائری از ابنِ انشا

آوارہ گرد کی ڈائری از ابنِ انشا

مارک ٹوین نے اپنے ایک ناول کے دیباچے میں لکھا تھا:

"اگر کوئی شخص اس کہانی میں مقصد تلاش کرتا ہوا پایا گیا تو اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ اگر کسی شخص نے اس کتاب سے سبق لینے کی کوشش کی تو اسے ملک بدر کر دیا جائے گا اور اگر کسی نے اس میں پلاٹ تلاش کرنے کی جرات کی تو اُسے گولی مار دی جائے گی ۔" {alertInfo}


ہم طبیعت کے ایسے متشدد نہیں ہیں جیسے مارک ٹوین تھے۔ تاہم خبردار کریں گے کہ اگر کسی نے اس سفرنامے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ اچھا نہ ہوگا۔ اور اگر کوئی شخص اس سفرنامے کو گائیڈ بنا کر اس کی مدد سے سفر کرنے کی کوشش کرے گا تو نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ اصل میں یہ اس قسم کا سفرنامہ نہیں جو سفر کے اختتام پر لکھا جاتا ہے۔ یہ تو ایک آوارہ گرد کی ڈائری کے منتشر اوراق ہیں۔ 1967ء میں ہم یونیسکو کی دعوت پر یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے دورے پر گئے تھے۔ وہاں جو کچھ ہم پر، اور ان ملکوں پر ہمارے ہاتھوں گزرتی رہی بے کم و کاست رقم کر کے اخبار کو بھیج دیا کرتے تھے۔ پچھلی قسط میں کیا لکھا تھا یہ کبھی یاد نہ رہا۔ چونکہ ہمیں جم کر لکھنے کی کبھی عادت نہیں رہی لہذا جو رہ گیا سو رہ گیا۔ مثلاََ چیکو سلوویکیا کی راجدھانی پراگ میں ہم نے جو چار بوہیمین دن گزارے، وہ یادگار تھے۔ سوچا ان پر زرا بیٹھ کر دلجمعی سے لکھیں گے سو یہ نہ ہوا۔ 

ہمارا یہ سفر پورے تین مہینے کا تھا۔ ایک مہینہ لندن میں۔ دو ہفتے جرمنی میں اور باقی ایام میں باقی دیار و امصار۔ یونیسکو کا روزانہ بھتہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی شخص کسی اونچے ہوٹل میں ٹھہر سکے اور کام و دہن کی معقول تواضع کر سکے۔ فائدہ یہ کہ مسافر میں تن آسانی پیدا نہیں ہوتی۔ ریاضت اور مجاہدے کے معنی سے آشنا ہو جاتا ہے۔ پیدل چلتا ہے اور بھوک رکھ کر کھاتا ہے (اگر کھاتا ہے تو) اس کا صحت پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے۔ ہم بھی اپنے بدن کے 20 پونڈ گھٹا کر لوٹے تھے۔ شاید یونیسکو کا منشا بھی یہی تھا۔ جوتا بھی ایک گھس گیا۔ دوسرا خریدنا پڑا۔ ایک بات ہے البتہ ان چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں نے جن میں بعض کے دروازے اووائن سے کھلتے بند ہوتے تھے اور ان کے غسل خانوں نے ہمیں لکھنے کا مواد بہت کچھ مہیا کیا۔