فطرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو ۔ اقبال ساجد

فطرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو ۔ اقبال ساجد
فطرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو
مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو

بکھرے ہوئے ہیں سینکڑوں مضمون جابجا
سڑکوں سے چُن کے کاغذی ٹکڑے پڑھا کرو

لفظوں میں بھی حروف نظر آئیں گے تمہیں
اوراقِ گل پہ شبنمی قطرے پڑھا کرو

بیکار کیوں ہو شہر کی سڑکوں پہ بیٹھ کر
ہاتھوں پہ قسمتوں کے نوشتے پڑھا کرو

تعریف کو ہی لوگ خوشامد کہیں تو پھر
خود اپنی شان میں ہی قصیدے پڑھا کرو

چبھتی ہے گر شعاعوں کی تحریر آنکھ میں
ساجدؔ کتابِ خاک کے ذرے پڑھا کرو

اقبال ساجد