رئیس امروہوی کا تعارف غزلیں اور اردو اشعار کا انتخاب

سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی۔ برِ صغیر کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہررموزِ علوم تھے۔ 12 ستمبر 1914 ء کو یوپی کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے۔ رئیس امروہوی کی تصانیف درج ذیل ہیں: 1۔ مثنوی لالہ صحرا 2۔ پسِ غبار 3۔ قطعات حصہ اول و دوم 4۔ حکایت 5۔ بحضرتِ یذداں 6۔ انا من الحسین 7۔ ملبوسِ لباسِ بہار 8۔ آثار رئیسؔ امروہوی جون ایلیا اور سید محمد تقی کے بڑے بھائی تھے۔ 22 ستمبر 1988ء کو سر میں گولی لگنے سے انتقال ہوا۔  یہ کیسا گیت ہے اے نَے نوازِ عالمِ ہُو کہ نے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہو بہارِ صبح کے نغمہ گروں کو کیا معلوم گزر گیا گل و غنچہ پہ کیا عذابِ نمو اگر نقاب الٹ دے تو کیا قیامت ہو وہ جانِ گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشبو مئے نشاط انڈیلی تھی میں نے ساغر میں کہاں سے آئی یہ زہرِ غمِ حیات کی بُو ہوائے صبح نہ جانے کہاں سے آئی ہے مچل رہی ہے فضا میں اک اجنبی خوشبو جہاں جو وجد میں آتا ہے نعرہء ہُو سے عجب نہیں کہ جہاں ہو خود ایک نعرہء ہُو میں ایک قطرہء لہو سے امید کیا رکھوں یہ کائنات ہے کیا صرف ایک قطرہء لہو تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو کسی کی بات میں تیرے سکوت میں اعجاز کسی کے لطف میں تیرے گریز میں جادو سزائے ہجر لرزتا ہے جس سے قلبِ حیات مجھے قبول بشرطیکہ اس کا اجر ہو تو متاعِ غم ہے کسی کو بہت عزیز اے دل! بہ احتیاطِ محبت میں صَرف کر آنسو شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی مسرتوں کو نچوڑا ٹپک پڑے آنسو یہ حادثاتِ شب و روز بے سبب تو نہیں بدل رہا ہے کوئی خوابِ ناز سے پہلو ۔۔۔ ڈھل گئی ہستیِ دل یُوں تری رعنائی میں مادہ جیسے نگھر جائے توانائی میں پہلے منزل پسِ منزل پسِ منزل اور پھر راستے ڈوب گئے عالمِ تنہائی میں گاہے گاہے کوئی جگنو سا چمک اٹھتا ہے میرے ظلمت کدہء انجمن آرائی میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود اپنی بصارت کی حدود کھو گئی ہیں مری نظریں مری بینائی میں ان سے محفل میں ملاقات بھی کم تھی نہ مگر اُف وہ آداب جو برتے گئے تنہائی میں یوں لگا جیسے کہ بل کھا کے دھنک ٹوٹ گئی اس نے وقفہ جو لیا ناز سے انگڑائی میں کس نے دیکھ ہیں تری روح کے رِستے ہوئے زخم کون اُترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں ۔۔ میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا ایک سایہ مرے عقب میں چلا صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی میں اکیلا سوادِ شب میں چلا جب گھنے جنگلوں کی صف آئی ایک تارا مرے عقب میں چلا آگے آگے کوئی بگولا سا عالمِ مستی و طرب میں چلا میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا اور کبھی شدتِ غضب میں چلا نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں اور کس شخص کی طلب میں چلا ایک انجان ذات کی جانب الغرض میں بڑے تعب میں چلا ۔۔۔  صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے صدمہء زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہوگی تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی امتحاں اور محبت کے مری جاں ہوں گے قلب پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے صدقہء تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے آج ہے جبر و تشدد کی حکومت ہم پر کل ہمیں بیخ کنِ قیصر و خاقاں ہوں گے وہ کہ اوہام و خرافات کے ہیں صیدِ زبوں آخر اس دامِ غلامی سے گریزاں ہوں گے صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے ۔۔۔  سیاہ ہے دلِ گیتی سیاہ تر ہو جائے خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے کچھ اس روش سے چلے بادِ برگ ریز خزاں کہ دور تک صفِ اشجار بے ثمر ہو جائے بجائے رنگ رگِ غنچہ سے لہو ٹپکے کھلے جو پھول تو ہر برگِ گل شرر ہو جائے زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے کوئی قدم نہ اٹھے سوئے منزل مقصود دعا کرو کہ ہر اک راہ پُر خطر ہو جائے یہ لوگ رہگزرِ زیست سے بھٹک جائیں اجل قوافلِ ہستی کی ہم سفر ہو جائے بہ قدرِ یک دو نفس بھی گراں ہے زحمتِ زیست حیاتِ نوعِ بشر اور مختصر ہو جائے ۔۔۔  رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر دیوار سی گر رہی ہے دل پر ٹہنی پہ خموش اک پرندہ ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر اڑتے ہیں ہوا کے سمت ذرے یادوں کے چلے ہیں لاؤ لشکر پیڑوں کے گھنے مہیب سائے یہ کون ہے مجھ پہ حملہ آور پتوں میں جھپک رہی ہیں آنکھیں شاخوں میں چمک رہے ہیں خنجر یہ کون قریب آ رہا ہے خود میرے ہی نقشِ پا پہ چل کر یہ کون سہما رہا ہے مجھے بیٹھا ہوا ہے چپ مرے برابر یہ کس کا تنفسِ پُر اسرار یہ کس کا تبسم فسوں گر اک کرب سا روح پر ہے طاری اک کیف سا چھا رہا ہے دل پر ۔۔  خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم ہر چند نازِ حسن پہ غالب نہ آ سکے کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم صبحِ ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ تخلیقِ کائناتِ دگر کر رہے ہم اے عرصہء طلب کے سبک سیر قافلو ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایاتِ زندگی آرائشِ کتابِ بشر کر رہے ہیں ہم تخمینہء حوادثِ طوفاں کے ساتھ ساتھ بطنِ صدف میں وزنِ گہر کر رہے ہیں ہم ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم ۔۔۔۔   چل اے دل ۔۔۔۔  چل اے دل!سوئے شہرِ جانانہ چل بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل یہی ہے تمنائے خواب و خمار سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل یہی ہے تقاضائے شعر و شباب سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل بہ تعمیلِ منشورِ مے خانہ اُٹھ بہ تجدیدِ پیمان و پیمانہ چل مبارز طلب ہیں حوادث تو کیا؟ رجز پڑھ کے تُو رزم خواہانہ چل مصائب ہیں ہنگامہ آرا تو ہوں عَلَم کھول کر فتح مندانہ چل جو مقصودِ خاطر ہے تنہا روی تو آزاد و تنہا و یگانہ چل جو تنہا روی کا سلیقہ نہ ہو تو انجان راہوں میں تنہا نہ چل اُٹھا دلق و کشکول و کاسہ اُٹھا قلندر صفت چَل فقیرانہ چل دف و چنگ و طاؤس و طنبور و نَے بہ قانونِ شہرود و شاہانہ چل شُتر بانِ لیلیٰ کو زحمت نہ دے رہِ شوق میں بے حجابانہ چل ابھی منزلیں منزلوں تک نہیں ابھی دُور ہے شہرِ جانانہ چل ابھی حُسن کی خیمہ گاہیں کہاں؟ ابھی اور ویرانہ ویرانہ چل ابھی شہرِ جاناں کی راہیں کہاں ابھی اور بیگانہ بیگانہ چل جَبل در جَبل دَشت در دَشت ابھی  جواں مردِ کہسار! مردانہ چل وہ بنتِ قبیلہ نہ ہو منتظر ذرا تیز اے عزمِ مستانہ چل وہ سلمائے صحرا نہ ہو مضطرب رَہِ دوست میں عذر خواہانہ چل حریفوں کی چالوں سے غافل نہ ہو کٹھن وادیوں میں حریفانہ چل غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب غزل خوانیاں کر غزالانہ چل بہت اجنبیت ہے اس شہر میں چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل  ۔۔۔۔۔۔۔  يہ کیسا گيت ہے اے نے نوازِ عالم ہو کہ نے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہو  بہارِ صبح کے نغمہ گروں کو کيا معلوم گزر گيا گل و غنچہ پہ کيا عزابِ نمو  اگر نقاب الٹ دے تو کيا قيامت ہو وہ جانِ گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشبو  مئے نشاط انڈيلی تھی ميں نے ساغر ميں کہاں سے آئی يہ زہرِ غمِ حيات کی بو  ہوائے صبح نہ جانے کہاں سے آئی ہے مچل رہی ہے فضا ميں اک اجنبی خوشبو  جہاں جو وجد ميں آتا ہے نعرہء ہو سے عجب نہيں کہ جہاں ہو خود ايک نعرہء ہو  ميں ايک قطرہ لہو سے اميد کيا رکھّوں يہ کائنات ہے کيا ؟ صرف ايک قطرہ لہو!  تمہيں شکستہ دلوں کا خيال ہی تو نہيں خيال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو  کسی کی بات ميں تيرے سکوت ميں اعجاز کسی کے لطف ميں تيرے گريز ميں جادو  سزائے ہجر لرزتا ہے جس سے قلبِ حيات مجھے قبول بشرطيکہ اس کا اجر ہو تو  متاعِ غم ہے کسی کو بہت عزيز اے دل بہ احتياطِ محبت ميں صرف کر آنسو  بہت خجل ہوں تری آستينِ لطف سے ميں کہ جوشِ غم تو وہی ہے مگر کہاں آنسو  شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی مسرّتوں کو نچوڑا ٹپک پڑے آنسو  يہ حادثات شب و روز بے سبب تو نہيں بدل رہا ہے کوئی خوابِ ناز سے پہلو  ۔۔

سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی۔ برِ صغیر کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہررموزِ علوم تھے۔ 12 ستمبر 1914 ء کو یوپی کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے۔
رئیس امروہوی کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔ مثنوی لالہ صحرا
2۔ پسِ غبار
3۔ قطعات حصہ اول و دوم
4۔ حکایت
5۔ بحضرتِ یذداں
6۔ انا من الحسین
7۔ ملبوسِ لباسِ بہار
8۔ آثار
رئیسؔ امروہوی جون ایلیا اور سید محمد تقی کے بڑے بھائی تھے۔ 22 ستمبر 1988ء کو سر میں گولی لگنے سے انتقال ہوا۔

1-
تنگ ہیں پم پر زمیں و آسماں
چل کہیں اے دل، مگر اے دل کہاں

2-
تم لاکھ ہم سفر تھے پر انصاف تو کرو
یارو! ہلاکِ لغزشِ پا ہم ہوئے کہ تم

3-
وہ لُو کا زور کہ سارے کواڑ بجتے ہیں
کہ جیسے لشکرِ جنات کا عمل ہر سُو

4-
رئیسؔ! ہم جو سوئے کوچہء حبیب چلے
ہمارے ساتھ ہزاروں بلا نصیب چلے

یہ چل چلاؤ عجیب و غریب تھا اے دوست!
غریب لوگ سوئے عالمِ عجیب چلے

5-
سلام ہم نفسو! الفراق ہم سفرو!
سفر ہے دور کا وہ بھی رہِ دراز کے ساتھ

6-
آہ کرتا ہوں تو چہرے پر ہے برسوں کا غبار
سانس لیتا ہوں تو سینے میں صدیوں کی گھٹن

7-
مانا کہ تُو سوار اور میں پیادہ ہوں
مجھ سے حذر نہ کر کہ شناسائے جادہ ہوں

8-
سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقہء نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے، وہ بے زباں نکلے

9-
یہ شہر ۔ شہرِ بخیلاں ہ اے دلِ بیمار!
یہاں تو زہر بھی ملتا نہیں دوا کے لے

10-
کوئے جاناں! مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو
عین ممکن ہے کہ پھر تیری طرف آنا نہ ہو

عین ممکن ہے کہ دہراؤں حدیثِ دیگراں
آج جو میری زباں پر ہے وہ افسانہ نہ ہو

پیرِ مے خانہ! یہ ممکن ہے کہ میرا جانشیں
رند ہو، پر واقفِ آدابِ میخانہ نہ ہو

11-
اے جگر خستگانِ زہرِ حیات
تم نے یہ زہر کھا کے کیا پاپا؟

دستو! اپنے آشیانے پر!
تم نے بجلی گرا کے کیا پایا

آج بھی ہر طرف اندھیرا ہے
جگنوؤ! جگمگا کے کیا پایا

آج بھی ہر طرف ہے سناٹا
بلبلو! گنگنا کے کیا پایا

کوئی نقاشِ مرگ سے پوچھے
نقشِ ہستی مٹا کے کیا پایا؟

اے ہوائے خزاں بتا تو نے
شعلہء گل بجھا کے کیا پایا

اب تو ہر دم یہ سوچتا ہوں رئیسؔ
کھو کے کیا کھویا پا کے کیا پایا

12-
پہلے تو بے دریغ مرا سر قلم کرو
پھر سرگزشتِ خونِ شہیداں رقم کرو

اعدادِ سنگ میل ہیں گم راہ کن بہت
یارو! قدم قدم پہ شمارِ قدم کرو

ہاں ۔ مجھ کو کربِ ذات نے مجنوں بنا دیا
مجنوں ہوں میں تو سورہ جن مجھ پہ دَم کرو

میں نے کہا کہ مجھ کو بکھرنے کا خوف ہے
اُس نے کہا کہ روح کے اجزا بہم کرو

میں نے کہا کہ ہجر کا غم ہے بہت شدید
اس نے کہا کہ وصل سے درمانِ غم کرو

میں نے کہا کہ کشتِ تمنا پڑی ہے خشک
اس نے کہا کہ گریہء خونیں سے نم کرو

میں نے کہا کہ قصہء غم ہے بہت طویل
اس نے کہا مبالغہء شعر کم کرو

پوچھا کہ رازِ جاں کو سپردِ قلم کروں
کہنے لگا ضرور سپردِ قلم کرو

میں نے کہا کہ ضبطِ نگارش کا خوف ہے
اس نے کہا کہ صفحہء جاں پر رقم کرو

میں نے کہا کہ مجھ پہ جوارِ حرم ہے تنگ
اس نے کہا کہ قصدِ دیارِ ضم کرو

13-
تم اے رئیسؔ! اب نہ اگر اور مگر کرو
کچھ دیر اپنے ساتھ بھی پیارے! بسر کرو

14-
ملتا نہیں مکاں جو شریفوں کے شہر میں
اٹھو- طوائفوں کے گھرانے میں گھر کرو

15-
جس گھر میں فرشتوں کے ضیا تھی اُسی گھر میں
ارواحِ خبیثہ کے چراغاں نظر آئے

جو مطلعِ تقدیسِ محبت تھے وہ چہرے
خفگی کے سبب ہم سے گریزاں نظر آئے

لب پر ہے رئیسؔ اپنے یہ مصرع کئی دن سے
"کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے"

16-
تیرِ ستم کی زد پہ سہی ۔ یہ خوشی تو ہے
کیا کیا چبھے ہیں سینہء اہلِ ستم میں ہم

وا حسرتا! قبیلہء لیلیٰ سے چھوٹ کر
اعراب میں عجم میں عرب ہی عجم میں ہم

بے وسوسہ لٹا کے متاعِ حیات کو
اب مبتلا ہیں وسوسہء بیش و کم میں ہم

17-
سنا ہے مخبروں سے آج ہے شب خون کا خطرہ
کہا ہے مخبرو نے رات بھر للکارتے رہیو

عزیزوں کی صفِ اول صفِ آخر سے کہتی ہے
اِدھر ہم نعرہ زن ہیں تم اُدھر للکارتے رہیو

ٹھہرنا ہے ہمیں کچھ دیر اس شہرِ خموشاں میں
جواب آئے نہ آئے تم مگر للکارتے رہیو

18-
نہیں ہے شہرِ وفا کی تباہیوں کا گِلہ!
مگر وہ لوگ جو رہتے تھے ان مکانوں میں

عجیب تھیں یہ غریبوں کی بستیاں لیکن
غریب رہ نہ سکے اِن غریب خانوں میں

ہماری گردِ سفر بھی نہ اب ملے شاید
رئیسؔ اہلِ تمنا کے کاروانوں میں

19-
ہر عہد کی شہریت سے محروم
ہر شہر میں بے وطن ہیں ہم لوگ

20-
دم کیوں نہ گھٹے کوہ و بیاباں کی فضا میں
جلتے ہوئے شہروں کی عفونت ہے ہوا میں

21
یہ فقط شورشِ ہوا تو نہیں
کوئی مجھ کو پکارتا تو نہیں

بول اے اخترِ غنودہء صبح!
کوئی راتوں کو جاگتا تو نہیں

ذہن پر ایک کھردری سی لکیر
کنکھجورے کا راستا تو نہیں

ریت پر چڑھ رہی ہے ریت کی تہہ
بابل و مصر و نینوا تو نہیں

اے مری جان مبتلا کے سکوں!
تو مری جانِ مبتلا تو نہیں

22-
اے دوست! ہم سے کفرِ محبت کا درس لے
اسرارِ کافری نہ بت و برہمن سے پوچھ

ہم بھی کبھی تھے انجمن آرائے آرزو!
اُس جان بزم و زیب دہِ انجمن سے پوچھ

23-
تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں
خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو

شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی
مسرتوں کو نچوڑا ٹپک پڑے آنسو

یہ حادثاتِ شب و روز بے سبب تو نہیں
بدل رہا ہے کوئی خوابِ ناز سے پہلو
۔۔۔

24-
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا

صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا

نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا

25-
صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے

صدمہء زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے

صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

26-
سیاہ ہے دلِ گیتی سیاہ تر ہو جائے
خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے

کچھ اس روش سے چلے بادِ برگ ریز خزاں
کہ دور تک صفِ اشجار بے ثمر ہو جائے

بجائے رنگ رگِ غنچہ سے لہو ٹپکے
کھلے جو پھول تو ہر برگِ گل شرر ہو جائے

زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو
خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے

کوئی قدم نہ اٹھے سوئے منزل مقصود
دعا کرو کہ ہر اک راہ پُر خطر ہو جائے

یہ لوگ رہگزرِ زیست سے بھٹک جائیں
اجل قوافلِ ہستی کی ہم سفر ہو جائے

بہ قدرِ یک دو نفس بھی گراں ہے زحمتِ زیست
حیاتِ نوعِ بشر اور مختصر ہو جائے

27-
رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر
دیوار سی گر رہی ہے دل پر

ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر

اڑتے ہیں ہوا کے سمت ذرے
یادوں کے چلے ہیں لاؤ لشکر

پیڑوں کے گھنے مہیب سائے
یہ کون ہے مجھ پہ حملہ آور

پتوں میں جھپک رہی ہیں آنکھیں
شاخوں میں چمک رہے ہیں خنجر

یہ کون قریب آ رہا ہے
خود میرے ہی نقشِ پا پہ چل کر

یہ کون سہما رہا ہے مجھے
بیٹھا ہوا ہے چپ مرے برابر

یہ کس کا تنفسِ پُر اسرار
یہ کس کا تبسم فسوں گر

اک کرب سا روح پر ہے طاری
اک کیف سا چھا رہا ہے دل پر

28-
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر
درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند نازِ حسن پہ غالب نہ آ سکے
کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

اے عرصہء طلب کے سبک سیر قافلو
ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

29-
چل اے دل!سوئے شہرِ جانانہ چل
بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل

یہی ہے تمنائے خواب و خمار
سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل

یہی ہے تقاضائے شعر و شباب
سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل

بہ تعمیلِ منشورِ مے خانہ اُٹھ
بہ تجدیدِ پیمان و پیمانہ چل

جو مقصودِ خاطر ہے تنہا روی
تو آزاد و تنہا و یگانہ چل

جو تنہا روی کا سلیقہ نہ ہو
تو انجان راہوں میں تنہا نہ چل

اُٹھا دلق و کشکول و کاسہ اُٹھا
قلندر صفت چَل فقیرانہ چل

دف و چنگ و طاؤس و طنبور و نَے
بہ قانونِ شہرود و شاہانہ چل

شُتر بانِ لیلیٰ کو زحمت نہ دے
رہِ شوق میں بے حجابانہ چل

ابھی منزلیں منزلوں تک نہیں
ابھی دُور ہے شہرِ جانانہ چل

حریفوں کی چالوں سے غافل نہ ہو
کٹھن وادیوں میں حریفانہ چل

غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب
غزل خوانیاں کر غزالانہ چل

بہت اجنبیت ہے اس شہر میں
چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل

30-
دل سے یا گلستاں سے آتی ہے
تیری خوشبو کہاں سے آتی ہے

کتنی مغرور ہے نسیمِ سحر
شاید اُس آستاں سے آتی ہے

اُن کے قاصد کا منتظر ہوں میں
اے اجل! تُو کہاں سے آتی ہے

شکوہ کیسا کہ ہر بَلا اے دوست!
جانتا ہوں جہاں سے آتی ہے

ہو چکیں آزمائشیں اتنی
شرم اب امتحاں سے آتی ہے

تیری آواز گاہ گاہ اے دوست!
پردہء سازِ جاں سے آتی ہے

دل سے مت سرسری گزر کہ رئیسؔ
یہ زمیں آسماں سے آتی ہے

31-
فرصت کہاں کہ سعیِ وصالِ بتاں کریں
ہم تو خیالِ وصلِ بُتاں سے بہل گئے

32-
قانعِ دشت نہیں ہمتِ ویرانہ پسند
کاش دنیا میں بیاں ہی بیاں ہوتا

33-
تم ہماری داستانِ زیست سے گھبرا گئے؟
موت آ جائے گی قصہ مختصر ہو جائے گا

34-
کل چند دوستانِ کہن کی قبور پر
پہنچا جو میں تو فاش رموزِ فنا ہوئے
وہ کیا ہوئے "جو قبر سے میں کیا سوال
آئی صدا یہ قبر سے فوراََ "وہ کیا ہوئے"

35-
تم بھی فریب خوردہ سہی پر بصد خلوص
مقتولِ مکر و صیدِ دغا ہم ہوئے کہ تم

36-
ہم کسی سے ملے مگر تا دیر
کوئی موضوعِ گفتگو نہ ملا

37-
جب کسی نے پرسشِ غم کی بحسبِ اتفاق
مجھ کو اپنا اک عزیز مہرباں یاد آ گیا