مخمس ۔۔۔ میر ببر علی انیس

مخمس از میر انیس

مخمس ۔ میر ببر علی انیس

یُوں ہی زیست کے دن گزر جائیں گے
تاسف رہے گا جو مر جائیں گے
گناہ کم نہ ہوگا جدھر جائیں گے
سلامی درِ شہ پہ گر جائیں گے
تو سب کام بگڑے سنور جائیں گے

نہ ہو بند میں منزلِ عمر ملے
مدر کر اب اے خضرِ فرخندہ پے
تڑپتا رہوں ہجر میں تا بہ کے
ہر اک آن یاں زندگی موت ہے
جئیں گے جو واں جا کے مر جائیں گے

لگے گی اگر آنسوؤں کی جھڑی
اٹھائے گا یہ ابر شرمندگی
سمندر نہ ہم چشم ہوگا کبھی
چڑھے گی جو ندی مرے اشک کی
تو نظروں سے دریا اُتر جائیں گے

غمِ شہ میں کہتے تھے عابد یہی
عبث مانعِ گریاں ہے یہ شقی
رُکی ہے کسی سے کبھی سیل بھی
چڑھے گی جو ندی مرے اشک کی
تو نظروں سے دریا اُتر جائیں گے

پڑے تھے جو چہرے پہ زلفوں کے بال
علی تیوروں سے علی کا جلال
دھرے ہاتھ قبضوں پہ بہرِ جدال
لعینوں سے کہتے تھے زینب کے لال
جو کچھ ہم سے ہوگا وہ کر جائیں گے

حرم رو کے جب ذکر کرتے کبھی
ہمیں اُن کی شادی کی حسرت رہی
نہ سہرا بندھا اور نہ مہندی لگی
یہ کہتی تھی بانو خبر کس کو تھی
کہ اکبر جواں ہو کے مر جائیں گے

ستایا صفیروں کو جب پیاس نے
لیا گھیر انہیں حسرت و یاس نے
اشارہ کیا خضر و الیاس نے
کہا جا کے اعدا سے عباس نے
سرک جاؤ ہم نہر پر جائیں گے

ملی لذتِ مہمانی انیسؔ
بس اب تلخ ہے زندگانی انیسؔ
فزوں حد سے ہے ناتوانی انیسؔ
ملے گا جو اب بھی نہ پانی انیسؔ
تڑپ کر کئی طفل مر جائیں گے

عبث ہو مری راہ روکے ہوئے
پھروں گا نہ گر خوں بھی میرا بہے
زیادہ تو پانی نہیں مانگتے
سکینہ کی اس ننھی سی مشک سے
جو ہے نہر خالی تو بھر جائیں گے

اسی سوچ میں تھے امامِ زمن
کہ بیکس کو یاں کون دے گا کفن
کہن جامہء شہ جو لائی بہن
پہن کر کہا شہ نے رختِ کہن
یہ کپڑے بھی تن سے اُتر جائیں گے

پسِ خیمہ اماں بھی اب روئیں گی
خدیجہ بھی اشکوں سے منھ دھوئیں گی
کرو صبر گر قسمتیں سوئیں گی
مصیبت کی راتیں بسر ہوئیں گی
نہ روؤ یہ دن بھی گزر جائیں گے

جو چاہوں تو بدلا ابھی ان سے لوں
پہ صابر ہوں کیا بد دعا ان کو دوں
یہ ظالم کریں تو کریں میرا خوں
خدا تو ہے شاہد کہ بے جُرم ہوں
چھپیں گے کدھر اور کدھر جائیں گے

جب آئیں گے محشر میں اہلِ فساد
خدا ُن سے پوچھے گا وجہِ عناد
ستم کر کے ہوئیں یہاں آج شاد
ملے گی قیامت میں اس خوں کی داد
فدک یہ نہیں جو مکر جائیں گے

جو ہے لطف تیری زباں میں انیسؔ
وہ ہے اور کس کی زباں میں انیسؔ
ترا غل ہے ہندوستاں میں انیسؔ
خدا بات رکھ لے جہاں میں انیسؔ
یہ دن ہر طرح سے گزر جائیں گے

۔۔۔۔
میر ببر علی انیس