کلیاتِ سلیم احمد میں سے چند غزلیں اور قطعے

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے ہم سے وہ یارِطرحدار نہ سمجھا جائے اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ شوق کو درخورِ اظہار نہ سمجھا جائے نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اُٹھتا ہے گل عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے بڑھ چلا آج بہت حد سے جنونِ گستاخ اب کہیں اس سے سرِ دار نہ سمجھا جائے دل کے لینے سے سلیمؔ اُس کو نہیں ہے انکار لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے ۔۔۔ جنابِ دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں جو چپ رہے ہیں کبھی لب بنازِ خوش گوئی تو اس نگاہ نے ہزار ہا باتیں کی ہیں خبر تو زُلف کی کچھ دے تری گلی کی ہوا کہ الجھنیں تو وہی جانِ مبتلا کی ہیں تمہارے حسن کی باتیں بھی لغزشیں ٹھہریں تو لغزشیں یہ محبت میں با رہا کی ہیں ۔۔ ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں وہ حال کون سا ہے جو تونے سنا نہیں ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اُٹھائیں محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں کتنا دیارِ درد کا موسم بدل گیا تجھ کو نگاہِ ناز ابھی کچھ پتہ نہیں تو بدگماں سہی پہ کبھی مل سلیمؔ سے یہ امرِ واقعہ ہے کہ دل کا بُرا نہیں ۔۔ کسی محفل میں مدت سے غزل خواں ہم نہیں جاتے کسے اب یاد ہیں وہ عہد و پیماں، ہم نہیں جاتے نہ ہونے سے ہمارے کون ایسا فرق پڑتا ہے خدا آباد رکھے بزمِ جاناں ۔۔ ہم نہیں جاتے  صبا کے ہاتھ خوشبو بھیج کر عہدِ بہاراں کی ہمیں کیوں تنگ کرتے ہیں گلستاں، ہم نہیں جاتے حرم کا پوچھنا کیا گھر خدا کا ہے مگر اے دل وہاں تو سب کے سب ہوں گے مسلماں ہم نہیں جاتے بلاوے تو بہت آئے مگر شہرِ نگاراں میں وہی ہے امتیازِ جان و جاناں۔ ہم نہیں جاتے ۔ سلیمؔ نفع نہ کچھ تم کو نقدِ جاں سے اُٹھا کہ مال کام کا جتنا تھا سب دکاں سے اُٹھا بُرا لگا مرے ساقی کو ذکرِ تشنہ لبی کہ یہ سوال مری بزم میں کہاں سے اُٹھا تمام عمر کی محرومیوں کا حاصل تھا وہ لطفِ خاص جو اک شب کے میہماں سے اُٹھا ۔۔ اتنا یاروں کو نہ سُوجھا کہ لگا کر لاتے یوں نہ آتا تو کوئی بات بنا کر لاتے جانے کیا بول اُٹھے دل کا ٹھکانہ کیا ہے ایسے وَحشی کو تو پہلے سے پڑھا کر لاتے یوں بھی سنتا ہے کہیں کوئی فسانہ غم کا ایسے مضموں کو ذرا اور بنا کر لاتے ہم تو اس بزم میں اے دل رہے تیری خاطر کچھ اشارہ بھی جو پاتے تو بُلا کر لاتے رنگِ محفل کی بڑی دھوم سنی ہے یارو کیا بگڑ جاتا ہمیں بھی جو دکھا کر لاتے آج ہی تم کو نہ آنا تھا چلو جاؤ سلیمؔ ورنہ ہم آج تمہیں اس سے ملا کر لاتے ۔۔ ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی خو بُو رہی سہی تھی جو تجھ میں خلوص کی اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی وہ دشتِ ہول خیز وہ منزل کی دھن وہ شوق یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی کیوں اضطراب دل پہ تجھے آ گیا یقیں اے بدگمانِ شوق یہ کیا بات ہو گئی دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی ۔۔ مسلسل دید بھی شاید کبھی ہو ابھی تو اس کے ڈر سے کانپتا ہوں مرا دل جیسے ہمسائے کا گھر ہے کبھی روزن سے خود کو جھانکتا ہوں ۔۔ جلا وطنی کے دن پورے ہوئے ہیں حیاتِ تازہ پانے جا رہا ہوں کیا ہے طُور کو زندہ کسی نے میں پھر سے آگ لانے جا رہا ہوں ۔۔ میرا ماضی مرے پیچھے نہ آئے مجھے یادوں کی اب فرصت نہیں ہے نئے خوابوں میں اُلجھایا گیا ہوں رہی تعبیر سو عُجلت نہیں ہے ۔۔ دل میں تھی کس کی طلب یاد نہیں حال جو کل تھا وہ اب یاد نہیں گریہء شب سے ہیں آنکھیں نم ناک اور رونے کا سبب یاد نہیں ۔۔ کبھی اپنی خوشی پر شادماں ہوں کبھی اپنے غموں پہ نوحہ خواں ہوں تواضع خود ہی کر لیتا ہوں اپنی میں اپنے گھر میں اپنا مہماں ہوں ۔۔ بھُلا بیٹھا تھا جس یادوں کو دل سے وہی یادیں ہیں جن پر جی رہا ہوں اُدھیڑا تھا جسے لاکھوں جتن سے وہ پیراہن میں پھر سے سی رہا ہوں ۔۔ تمہارے دوش پر بھاری نہیں تھا یہ احساس کس لیے فرما دیا ہے عزیز اس قدر عُجلت بھی کیا تھی مجھے زندہ ہی کیوں دفنا دیا ہے ۔۔

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے
ہم سے وہ یارِطرحدار نہ سمجھا جائے
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ
شوق کو درخورِ اظہار نہ سمجھا جائے
نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اُٹھتا ہے گل
عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے
عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے
حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے
بڑھ چلا آج بہت حد سے جنونِ گستاخ
اب کہیں اس سے سرِ دار نہ سمجھا جائے
دل کے لینے سے سلیمؔ اُس کو نہیں ہے انکار
لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے
۔۔۔

جنابِ دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں
اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں
جو چپ رہے ہیں کبھی لب بنازِ خوش گوئی
تو اس نگاہ نے ہزار ہا باتیں کی ہیں
خبر تو زُلف کی کچھ دے تری گلی کی ہوا
کہ الجھنیں تو وہی جانِ مبتلا کی ہیں
تمہارے حسن کی باتیں بھی لغزشیں ٹھہریں
تو لغزشیں یہ محبت میں با رہا کی ہیں
۔۔

ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں
وہ حال کون سا ہے جو تونے سنا نہیں
ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اُٹھائیں
محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں
یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے
پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں
کتنا دیارِ درد کا موسم بدل گیا
تجھ کو نگاہِ ناز ابھی کچھ پتہ نہیں
تو بدگماں سہی پہ کبھی مل سلیمؔ سے
یہ امرِ واقعہ ہے کہ دل کا بُرا نہیں
۔۔


کسی محفل میں مدت سے غزل خواں ہم نہیں جاتے
کسے اب یاد ہیں وہ عہد و پیماں، ہم نہیں جاتے
نہ ہونے سے ہمارے کون ایسا فرق پڑتا ہے
خدا آباد رکھے بزمِ جاناں ۔۔ ہم نہیں جاتے
 صبا کے ہاتھ خوشبو بھیج کر عہدِ بہاراں کی
ہمیں کیوں تنگ کرتے ہیں گلستاں، ہم نہیں جاتے
حرم کا پوچھنا کیا گھر خدا کا ہے مگر اے دل
وہاں تو سب کے سب ہوں گے مسلماں ہم نہیں جاتے
بلاوے تو بہت آئے مگر شہرِ نگاراں میں
وہی ہے امتیازِ جان و جاناں۔ ہم نہیں جاتے
۔

سلیمؔ نفع نہ کچھ تم کو نقدِ جاں سے اُٹھا
کہ مال کام کا جتنا تھا سب دکاں سے اُٹھا
بُرا لگا مرے ساقی کو ذکرِ تشنہ لبی
کہ یہ سوال مری بزم میں کہاں سے اُٹھا
تمام عمر کی محرومیوں کا حاصل تھا
وہ لطفِ خاص جو اک شب کے میہماں سے اُٹھا
۔۔

اتنا یاروں کو نہ سُوجھا کہ لگا کر لاتے
یوں نہ آتا تو کوئی بات بنا کر لاتے
جانے کیا بول اُٹھے دل کا ٹھکانہ کیا ہے
ایسے وَحشی کو تو پہلے سے پڑھا کر لاتے
یوں بھی سنتا ہے کہیں کوئی فسانہ غم کا
ایسے مضموں کو ذرا اور بنا کر لاتے
ہم تو اس بزم میں اے دل رہے تیری خاطر
کچھ اشارہ بھی جو پاتے تو بُلا کر لاتے
رنگِ محفل کی بڑی دھوم سنی ہے یارو
کیا بگڑ جاتا ہمیں بھی جو دکھا کر لاتے
آج ہی تم کو نہ آنا تھا چلو جاؤ سلیمؔ
ورنہ ہم آج تمہیں اس سے ملا کر لاتے
۔۔

ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی
یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی
دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی
کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی
رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے
جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی
خو بُو رہی سہی تھی جو تجھ میں خلوص کی
اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی
وہ دشتِ ہول خیز وہ منزل کی دھن وہ شوق
یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی
کیوں اضطراب دل پہ تجھے آ گیا یقیں
اے بدگمانِ شوق یہ کیا بات ہو گئی
دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر
اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی
۔۔

مسلسل دید بھی شاید کبھی ہو
ابھی تو اس کے ڈر سے کانپتا ہوں
مرا دل جیسے ہمسائے کا گھر ہے
کبھی روزن سے خود کو جھانکتا ہوں
۔۔

جلا وطنی کے دن پورے ہوئے ہیں
حیاتِ تازہ پانے جا رہا ہوں
کیا ہے طُور کو زندہ کسی نے
میں پھر سے آگ لانے جا رہا ہوں
۔۔

میرا ماضی مرے پیچھے نہ آئے
مجھے یادوں کی اب فرصت نہیں ہے
نئے خوابوں میں اُلجھایا گیا ہوں
رہی تعبیر سو عُجلت نہیں ہے
۔۔

دل میں تھی کس کی طلب یاد نہیں
حال جو کل تھا وہ اب یاد نہیں
گریہء شب سے ہیں آنکھیں نم ناک
اور رونے کا سبب یاد نہیں
۔۔

کبھی اپنی خوشی پر شادماں ہوں
کبھی اپنے غموں پہ نوحہ خواں ہوں
تواضع خود ہی کر لیتا ہوں اپنی
میں اپنے گھر میں اپنا مہماں ہوں
۔۔

بھُلا بیٹھا تھا جس یادوں کو دل سے
وہی یادیں ہیں جن پر جی رہا ہوں
اُدھیڑا تھا جسے لاکھوں جتن سے
وہ پیراہن میں پھر سے سی رہا ہوں
۔۔

تمہارے دوش پر بھاری نہیں تھا
یہ احساس کس لیے فرما دیا ہے
عزیز اس قدر عُجلت بھی کیا تھی
مجھے زندہ ہی کیوں دفنا دیا ہے
۔۔