دیا شنکر نسیم کا مختصر تعارف نمونہ کلام اور کتابیں


دیا شنکر نسیم مختصر تعارف اور نمونہء کلام  ولادت: 1812ء لکھنؤ وفات: 1844ء لکھنؤ  نسیم کا خاندان کشمیری پنڈتوں کا تھا جو اودھ میں آباد ہو گیا تھا۔ نسیم آتش کے شاگرد تھے۔ بتیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔ شہرت مثنوی گلزارِ نسیم کی وجہ سے ہے۔ آتشؔ کے رنگ میں چند غزلیں بھی ملتی ہیں۔  جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا  نے قاصد خیال نہ پیکِ نظر گیا ان تک میں اپنی آپ ہی لے کر خبر گیا  روح و روان و جسم کی صورت میں کیا کہوں جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا  طوفانِ نوح اس میں ہو یا شورِ حشر ہو ہونا جو کچھ ہے ہوگا جو گزرا گزر گیا  سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص  یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا  شوریدگی سے میری یہاں تک وہ تنگ تھے روٹھا جو میں تو خیر منائی کہ شر گیا  کاغذ سیاہ کرتے ہو کس کے لیے نسیم آیا جوابِ خط تمہیں اور نامہ بر گیا  ۔۔۔۔  منتخب اشعار  بوئے گل غنچے سے کہتی ہے نسیم بات نکلی منہ سے افسانہ چلا  چمن میں دہر کے آ کر میں کیا نہال ہوا برنگِ سبزہِ بیگانہ پائمال ہوا  آتے آتے آئے گا دل کو قرار جاتے جاتے بیقراری جائے گی  ــ خُم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے مثلِ ساغر اور کے کام آئیے -- منت دلا کسی کی نہ اصلا اٹھائیے مر جائیے نہ نازِ مسیحا اُٹھائیے --  ساقی قدحِ شراب دے دے مہتاب میں آفتاب دے دے ـ  عشق کے زینے کے آگے آسماں بھی پست ہے سر جھکایا ہے فرشتوں نے بشر کے سامنے ـ  کیا ملا عرضِ مدعا کر کے بات بھی کھوئی التجا کر کے لائے اُس بت کو التجا کر کے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
Pt. Diya Shankar Naseem

دیا شنکر نسیم مختصر تعارف اور نمونہء کلام

ولادت: 1812ء لکھنؤ
وفات: 1844ء لکھنؤ

نسیم کا خاندان کشمیری پنڈتوں کا تھا جو اودھ میں آباد ہو گیا تھا۔ نسیم آتش کے شاگرد تھے۔ بتیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔ شہرت مثنوی گلزارِ نسیم کی وجہ سے ہے۔ آتشؔ کے رنگ میں چند غزلیں بھی ملتی ہیں۔

جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا

نے قاصد خیال نہ پیکِ نظر گیا
ان تک میں اپنی آپ ہی لے کر خبر گیا

روح و روان و جسم کی صورت میں کیا کہوں
جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا

طوفانِ نوح اس میں ہو یا شورِ حشر ہو
ہونا جو کچھ ہے ہوگا جو گزرا گزر گیا

سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص 
یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا

شوریدگی سے میری یہاں تک وہ تنگ تھے
روٹھا جو میں تو خیر منائی کہ شر گیا

کاغذ سیاہ کرتے ہو کس کے لیے نسیم
آیا جوابِ خط تمہیں اور نامہ بر گیا

۔۔۔۔

منتخب اشعار

بوئے گل غنچے سے کہتی ہے نسیم
بات نکلی منہ سے افسانہ چلا

چمن میں دہر کے آ کر میں کیا نہال ہوا
برنگِ سبزہِ بیگانہ پائمال ہوا

آتے آتے آئے گا دل کو قرار
جاتے جاتے بیقراری جائے گی
 ــ
خُم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
مثلِ ساغر اور کے کام آئیے
--
منت دلا کسی کی نہ اصلا اٹھائیے
مر جائیے نہ نازِ مسیحا اُٹھائیے
--

ساقی قدحِ شراب دے دے
مہتاب میں آفتاب دے دے
ـ

عشق کے زینے کے آگے آسماں بھی پست ہے
سر جھکایا ہے فرشتوں نے بشر کے سامنے
ـ

کیا ملا عرضِ مدعا کر کے
بات بھی کھوئی التجا کر کے
لائے اُس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے