ابوالمعانی حضرتِ بیدل دھلوی کی واحد اردو غزل



حضرت میر تقی میر نے بیدلؔ کے انتقال کے 32 سال بعد " نکات الشعراء " میں پہلے پہل بیدل کو بہ حیثیت اردو شاعر روشناس کیا ان کے زائدۂ فکر کے دو شعر نقل کئے۔ یہی بیدلؔ کی کل کائنات سمجھی جاتی تھی۔ تقریباً 80 کی دہائی میں یہ خبر ملی کہ ایک شخص غلام کبریا خان افغانی کے پاس ایک بیاض میں بیدلؔ کی ایک مکمل اردو غزل دستیاب ہوئی ، مطلع اور مقطع تو وہی ہے جو عام تذکروں میں ملتا ہے مگر اس غزل کے تین شعر اور ملے، اب یہ مکمل غزل بیدل کی نادر یادگار ہے ۔ غزل اپنے رنگ میں "بیدلیت" کی غمازی کر رہی ہے۔

مت پوچھ دل کی باتیں وہ دل کہاں ہے ہم میں
اُس تخم بے نشاں کا حاصل کہاں ہے ہم میں

موجوں کی زد میں آئی جب کشتیِ تعیۤن
بحرِ فنا پکارا ساحل کہاں ہے ہم میں

خارج نے کی ہے پیدا تمثال آئینے میں
جو ہم سے ہے نمایاں داخل کہاں ہے ہم میں

سوزِ نہاں میں کب کا وہ خاک ہو چکا ہے
اب دل کو ڈھونڈتے ہو وہ دل کہاں ہے ہم میں

جب دل کے آستاں پر عشق آن کر پکارا
پردے سے یار بولا بیدلؔ کہاں ہے ہم میں


آپ نے دیکھا؟ خیالات میں کتنی گہرائی، بیان میں کتنی صفائی، بندش میں کتنی پختگی، یہ اعجاز نہیں تو اور کیا ہے ؟