انتخاب غزلیات میر دردؔ از خواجہ میرد درد دھلوی

غزلیات میر درد دھلوی

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا

بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن 
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا

ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا

مانندِ حباب آنکھ تو اے درد! کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
۔۔۔۔


آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے
ایسے ہمارے طالعِ بیدار سو گئے

خوابِ عدم سے چونکے تھے ہم تیرے واسطے
آخر کو جاگ جاگ کے ناچار سو گئے

اٹھتی نہیں ہے خانۂ زنجیر سے صدا
دیکھو تو، کیا سبھی یہ گرفتار سو گئے

تیری گلی ہے یا کوئی آرام گاہ ہے
رکھتے قدم کے، پانو تو ہر بار سو گئے

وے مر چکے، جو رونقِ بزمِ جہان تھے
اب اٹھیے درد یاں سے کہ سب یار سو گئے
۔۔


اپنا تو نہیں یار میں کچھ، یار ہوں تیرا
تو جس کی طرف ہووے، طرفدار ہوں تیرا

کڑھنے پہ مرے، جی نہ کڑھا، تیری بلا سے
اپنا تو نہیں غم مجھے، غم خوار ہوں تیرا

تو چاہے نہ چاہے، مجھے کچھ کام نہیں ہے
آزاد ہوں اس سے بھی، گرفتار ہوں تیرا

تو ہووے جہاں، مجھ کو بھی ہونا وہیں لازم
تو گل ہے مری جان، تو میں خار ہوں تیرا

ہے عشق سے میرے یہ ترے حسن کا شہرہ
میں کچھ نہیں، پر گرمی ِ بازار ہوں تیرا

میری بھی طرف تو کبھی آ جا، مرے یوسف!
بڑھیا کی طرح، میں بھی خریدار ہوں تیرا

اے درد! مجھے کچھ نہیں اب اور تو آزار
اس چشم سے کہہ دینا کہ بیمار ہوں تیرا
۔۔۔۔۔


ترے کہنے سے، میں از بس کہ باہر ہو نہیں سکتا
ارادہ صبر کا کرتا تو ہوں، پر ہو نہیں سکتا

کہا جب میں، ترا بوسہ تو جب سے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے، پر قند ِ مکرر ہو نہیں سکتا

دل ِ آوارہ الجھے یاں کسو کی زلف میں، یا رب!
علاج آوارگی کا اس سے بہتر ہو نہیں سکتا

مری بے صبریوں کی بات سن، سب سے وہ کہتا ہے
تحمل مجھ سے بھی تو حال سن کر، ہو نہیں سکتا

کرے کیا فائدہ نا چیز کو، تقلید اچھوں کی
کہ جم جانے سے کچھ اولا تو گوہر ہو نہیں سکتا

نہیں چلتا ہے کچھ اپنا تو تیرے عشق کے آگے
ہمارے دل پہ کوئی اور تو در ہو نہیں سکتا

کہا میں، یوں تو مل جاتے ہو آ کر بعد مدت کے
اگر چاہو تو یہ کیا تم سے اکثر ہو نہیں سکتا

لگا کہنے سمجھ اس بات کو ٹک تو کیا جلد اتنا
ترے گھر آنے جانے میں، مرا گھر ہو نہیں سکتا

بچوں کس طرح میں اے درد! اس کی تیغ ِ ابرو سے
کہ جس کے سامنے کوئی بھی بر ہو نہیں سکتا
۔۔۔

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر ادھر چلے

دوستو دیکھا تماشہ یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

جوں شرر اے ہستی ِ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کا سنا ہے بھر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ بھی آڑے آ گیا جدھر چلے

ساقیا، یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
۔۔۔۔۔۔


جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا

جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

نالہ، فریاد، آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا، سو کر دیکھا

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

زور عاشق مزاج ہے کوئی
درد کو، قصہ مختصر، دیکھا
۔۔۔


جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ہنستے ہیں، رو دیا ہوگا

ان نے قصداً بھی، میرے نالے کو
نہ سنا ہوگا، گر سنا ہوگا

دیکھئیے، اب کے غم سے جی میرا
نہ بچے گا، بچے گا کیا ہوگا !

دل، زمانے کے ہاتھ سے، سالم
کوئی ہوگا، جو رہ گیا ہوگا

حال مجھ غم زدہ کا، جس تس نے
جب سنا ہوگا، رو دیا ہوگا

دل کے پھر زخم تازہ ہوتے ہیں
کہیں غنچہ کوئی کھلا ہوگا

یک بہ یک نام لے اٹھا میرا
جی میں کیا اس کے آگیا ہوگا

میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں
بن کیے آہ، کم رہا ہوگا

لیکن اس کو اثر، خدا جانے
نہ ہوا ہوگا، یا ہوا ہوگا !

قتل سے میرے، وہ جو باز رہا
کسی بد خواہ نے کہا ہوگا

دل بھی اے درد ! قطرہ ِ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
۔۔۔


دل تو سمجھائے سمجھتا بھی نہیں
کہیے سودائی، تو سودا بھی نہیں

اس کی باتیں مجھ سے کیا پوچھو ہو تم
مدتیں گزریں کہ دیکھا بھی نہیں
۔۔۔۔


دنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا
پر منہ پھر اس طرف نہ کیا اس نے، جو گیا

پھرتی ہے میری خاک، صبا در بہ در لئے
اے چشم اشک بار یہ کیا تجھ کو ہو گیا

آگاہ اس جہاں سے نہیں غیر ِ بے خوواں
جاگا وہی، ادھر سے جو منہ ڈھانک سو گیا

طوفان ِ نوح نے تو ڈبوئی زمیں فقط
میں ننگِ خلق، ساری خدائی ڈبو گیا

برہم کہیں نہ ہو گل و بلبل کی آشتی
ڈرتا ہوں، آج باغ میں وہ تند خو گیا

واعظ! کسے ڈرائے ہے یوم ِ حساب سے
گریہ میرا تو نامہ ِ اعمال دھو گیا

پھولے گی اس زباں میں بھی گلزار ِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا

آیا نہ اعتدال پہ ہر گز مزاج ِ دہر
میں گرچہ گرم و سرد زمانہ سمو گیا

اے درد! جس کی آنکھ کھلی س جہان میں
شبنم کی طرح، جان کو اپنی وہ رو گیا
۔۔۔۔۔۔


لیتا نہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز
پھرتا ہے کس تلاش میں یہ، آسماں ہنوز

ہے بعد ِ مرگ بھی وہی آو و فغاں ہنوز
لگتی نہیں ہے تالو سے میری زباں ہنوز

موجود بوجھتا نہیں کوئی کسو کے تئیں
توحید تو بھی ہوتی نہیں ہے عیاں ہنوز

سو سو طرح کی ہجر میں ہوتی ہے جاں کنی
مرتا نہیں ہوں تو بھی تو میں سخت جاں ہنوز

ہر چند کہنہ سال ہے دنیا تو کس قدر
آتی ہے پر نظر میں سبھوں کی جواں ہنوز

کعبے میں، درد ! آپ کو لایا ہوں کھینچ کر
دل سے گیا نہیں ہے خیال ِ بتاں ہنوز
۔۔۔۔


ماہیتوں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
اعیان میں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا

یاں افتقار کا تو امکان سب ہوا ہے
ہم ہوں نہ ہوں ولے، ہے ہونا ضرور تیرا

باہر نہ آ سکی تو قید ِ خودی سے اپنی
اے عقل ِ بے حقیقت! دیکھا شعور تیرا

ہے جلوہ گاہ تیرا، کیا غیب، کیا شہادت
یاں ہے شہود تیرا، واں ہے حضور تیرا

جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسو طرف یاں
جی میں سما رہا ہے از بس غرور تیرا

اے درد! منسبط ہے ہر سو کمال اس کا
نقصان گر تو دیکھے، تو ہے قصور تیرا
۔۔۔۔


مدرسہ، یا دیر تھا، یا کعبہ، یا بت خانہ تھا
ہم سبھی مہمان تھے واں، تو ہی صاحب خانہ تھا

وائے نادانی! کہ وقت ِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا، افسانہ تھا

حیف! کہتے ہیں، ہوا گل زار، تا راج ِ خزاں
آشا اپنا بھی وہاں اک سبزہ ِ بے گانہ تھا

ہو گیا مہماں سرائے کثرت ِ موہوم، آہ !
وہ دل ِ خالی، کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا

بھول جا، خوش رہ، عبث دے سابقے مت یاد کر
درد ! یہ مذکور کیا ہے، آشنا تھا، یا نہ تھا
۔۔۔۔۔


نہ مطلب ہے گدائی سے، نہ یہ خواہش کہ شاہی ہو
الٰہی! ہووے وہ جو کچھ کہ مرضیِ الٰہی ہو

نگینے کے سوا کوئی بھی ایسا کام کرتا ہے
کہ ہو نام اور کا روشن، اور اپنی روسیاہی ہو

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہر گز
گلہ تب ہو، اگر تو نے کسو سو بھی نباہی ہو
۔۔۔۔




یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
پر، شتابی تو بھلا آئیے گا

جی کی جی ہی میں نہ رکھ جائیے گا
بات جو ہوگی، سو فرمائیے گا

رخ تمہارا بھی اگر پائیے گا
تو ہی منہ اپنا بھی دکھلائیے گا

میں جو پوچھا، کبھو آؤ گے؟ کہا
جی میں آ جائے گی تو آئیے گا

کیونکے گزرے گی بھلا، دیکھوں تو
گر اسی طرح سے شرمائیے گا

میں خدا جانے یہ کیا دیکھوں ہوں
آپ کچھ جی میں نہ بھرمائیے گا

میرے ہونے سے عبث رکتے ہو
پھر اکیلے بھی تو گھبرائیے گا

پوچھ کر حال تو پھر سنتے نہیں
بس مجھے اور نہ بکوائیے گا

کہیں ہم کو بھی بھلا لوگوں میں
پھرتے چلتے نظر آ جائیے گا

زلف میں دل کو تو الجھاتے ہو
پھر اسے آپ ہی سلجھائیے گا

خدمت اوروں ہی کو فرماتے ہو
کبھو بندے کو بھی فرمائیے گا

قتل تو کرتے ہو مجھ کو، لیکن
بہت سا آپ میں پچھتائیے گا

حرم و در تو ہم چھان چکے
کہیں اس کا بھی نشاں پائیے گا

درد ! ہم کو تو سمجھائیں گے، پر
اپنے تئیں آپ بھی سمجھائیے گا
۔۔۔۔


یہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے
کہ دل کے تئیں دل سے یاں راہ ہے

اگر بے حجابانہ وہ بت ملے
غرض پھر تو اللہ ہی اللہ ہے

عدم رفتگاں کو جو کہنا ہے کچھ
تو قاصد ہمارا سرِ راہ ہے

نہ یاں علم و دانش، نہ فضل و ہنر
فقط ایک دل ہے کہ آگاہ ہے

گئے نالہ و آہ سب ہم نفس
دم ِ سرد ہی اک ہوا خواہ ہے

خدا اس کو رکھے، سلامت رہے
خبر گیر ِ دل گاہ بے گاہ ہے

یہ کیا درد! تجھ پر مصیبت پڑی
کہ دن رات نالہ ہے اور آہ ہے
۔۔۔۔




کیا فرق داغ و گل میں، اگر گل میں بو نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو

ہووے، نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہو سکے، سو ہم سے کبھو نہ ہو

جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنا، ملی، مگر
یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو

جوں شمع شمع ہوویں گر اہل ِ زباں ہزار
آپس میں چاہئیے کہ کبھو گفتگو نہ ہو

جو صبح، چاک ِ سینہ مرا، اے رفو گراں!
یاں تو کسو کے ہاتھ سے ہر گز رفو نہ ہو

اے درد ! زنگ ِ صورت اگر اس میں جا کرے
اہل ِ صفا میں آئینہ ِ دل کو رو نہ ہو
۔۔۔۔




ہے غلط، گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

بے خبر تیغ ِ یار ! کہتے ہیں
باقی اس نیم جان میں کچھ ہے

ان دنوں کچھ عجب ہے حال مرا
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے

اور بھی چاہئیے سو کہیے، اگر
دل ِ نا مہربان میں کچھ ہے

درد ! تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
۔۔۔۔


روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

اے گل تو رخت باندھ، اٹھاؤں میں آشیاں
گل چیں تجھے نہ دیکھ سکے باغباں تجھے

رہتی ہے کوئی بن کیے میرے تئیں تمام
جوں شمع چھوڑنے کی نہیں یہ زباں مجھے

پتھر تلے کا ہاتھ ہے غفلت کے ہاتھ دل
سنگ گراں ہوئی ہے یہ خواب گراں مجھے

کچھ اور کنج غم کے سوا سوجھتا نہیں
آتا ہے جب کہ یاد وہ کنج وہاں مجھے

جاتا ہوں خوش دماغ جو سن کر اسے کبھو
بدلے ہے دونوں ہی نظریں وہ، دیکھا جہاں مجھے

جاتا ہوں بس کہ دم بہ دم اب خاک میں ملا مجھے
ہے خضر راہ درد یہ ریگ رواں مجھے