کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا ۔۔۔۔ اقبال ساجد

کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا ۔۔۔۔ اقبال ساجد

کل شب دلِ کافر کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂ دل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا

میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رُسوا
اُس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا

ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا

یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفینے سے نکالا

۔۔۔۔۔۔۔
اقبال ساجد
(ادبِ لطیف شمارہ نمبر 8)