حبیب جالب کے پچاس شعار | کلیاتِ حبیب جالبؔ سے انتخاب

حبیب جالب کے پچاس اشعار 1۔ اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے جالبؔ چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم  2۔ بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں  مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے  3۔ یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے  4۔ ہم زمانے کا ستم بھول گئے جب ترا لطفِ نظر یاد آیا  5۔ جالبؔ یہاں تو بات گریباں تک آ گئی رکھتے تھے صرف چاکِ جگر اُس دیا میں  6۔ ہم ہی نہیں پائمال تنہا اے دوست! تباہ اک جہاں ہے  7۔ سوئے ہو گھنی زلف کے سائے میں ابھی تک اے راہ رواں کیا یہی اندازِ سفر ہے  8. زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا چلو جالبؔ انہیں چل کر منا لیں  9۔ کٹی اب کٹی منزلِ شامِ غم بڑھائے چلو پافگارو قدم  10۔ پڑھے گا زمانہ بڑے شوق سے کیے جاؤں دل کی کہانی رقم  11۔ یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں  12۔ تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ تو پھول ہے شرار ہیں تیری گلی کے لوگ  13۔ دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں  14۔ اس قدر بے رُخی سے بات نہ کر دیکھ تو ہم کہاں سے آئے ہیں  15۔ کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے ان کے گیسو بکھر گئے ہوں گے  16۔ قہقہے بے شعور لوگوں کے کس قدر بار ہیں سماعت پر  17۔ اس دیارِ ستم ظریفاں میں فرصتِ ہاؤ ہُو بہت ہے مگر  18۔ شوقِ آوارگی میں کیا نہ ہوا ایک تیرا ہی سامنا نہ ہوا  19۔ برگِ آوارہ کی صورت رنگِ خشک و تَر دیکھا ہے  20۔ تری نگاہ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست تری نگاہ کے قابل ہمارا حال نہ تھا  21۔ اس شہرِ تیرگی میں نگاہِ خموش سے شب دوستوں کو رقص کُناں دیکھتے چلو  22۔ اِک قیامت ہے جالب یہ تنقیدِ نَو جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے  23۔ ہم کو نظروں سے گرانے والے ڈھونڈ اب ناز اُٹھانے والے  24۔ ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے  25۔ نہ وہ ادائے تکلم نہ احتیاطِ زباں مگر یہ ضد کہ ہمیں اہلِ لکھنو کہیے  26۔ کہاں اب ان کو پکاریں کہاں گئے وہ لوگ جنہیں فسونِ طرب موجِ رَنگ و بُو کہیے  27۔ غزل کی بات جو کرتا ہے کم نظر نقاد اُسے بھی شیخ کا اندازِ گفتگو کہیے  28۔ کبھی کبھی تیری یادوں کی سانولی رُت میں بہے جو اشک تو برسات ہو گئی پیارے  29۔ تری نگاہِ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے  30۔ خامشی سے ہزار غم سہنا کتنا دشوار ہے غزل کہنا  31۔ کسے خبر تھی ہمیں راہبر ہی لُوٹیں گے بڑے خلوص سے ہم کارواں کے ساتھ رہے  32۔ وہ ملا تھا راہ میں اک شام کو پھر اسے میں نے یہاں ڈھونڈا بہت  33۔ مرا قصور کہ میں ان کے ساتھ چل نہ سکا وہ تیز گام مرا انتظار کیوں کرتے  34۔ موجِ نکہت اپنی قسمت میں نہ تھی دور سے اس پھول کو دیکھا بہت  35۔ یہ زمانہ ہے شعر کا دشمن اس زمانے کا کیا گِلا اے دوست  36۔ اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جائے گا  37۔ بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا رُسوا نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں  38۔ ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ھُما کیا لکھنا  39۔ چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سو جائیں  40۔ جالبؔ ہوا قفس میں یہ راز آشکارا اہلِ جنوں کے بھی تھے کیا حوصلے بلا کے  41۔ دکھ اٹھانے میں ہے کمال ہمیں کر گیا فن یہ لازوال ہمیں  42۔ جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی  43۔ میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے آدمی اے خد، خدا نہ بنے  44۔ بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا  45۔ ہم جو اب تک اٹھا رہے ہیں ستم شاید اپنا جگر ہے آہن کا  46۔ اب ملیں بھی تو نہ پہنچان سکیں ہم ان کو جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا  47۔ وہ کنارِ جُو ملاقاتیں گئیں ساتھ ان کے چاندنی راتیں گئیں دل عجب قصوں میں اب ہے مبتلا گیسو و رُخسار کی باتیں گئیں  48۔ بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پِٹے سڑک کے بیچ گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ  49۔ میں بھی تری طرح سے آوارہ و بیکار اڑتے ہوئے پتے مجھے ہمراہ لیے چل  50۔ ہم اُن نجوم کی تابش بھی چھین سکتے ہیں بنا دیا ہے جنہیں فخرِ آسماں ہم نے

حبیب جالب کے پچاس اشعار

اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم

بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں 
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے

یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

ہم زمانے کا ستم بھول گئے
جب ترا لطفِ نظر یاد آیا

جالبؔ یہاں تو بات گریباں تک آ گئی
رکھتے تھے صرف چاکِ جگر اُس دیا میں

ہم ہی نہیں پائمال تنہا
اے دوست! تباہ اک جہاں ہے

سوئے ہو گھنی زلف کے سائے میں ابھی تک
اے راہ رواں کیا یہی اندازِ سفر ہے

8.
زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا
چلو جالبؔ انہیں چل کر منا لیں


کٹی اب کٹی منزلِ شامِ غم
بڑھائے چلو پافگارو قدم

10۔
پڑھے گا زمانہ بڑے شوق سے
کیے جاؤں دل کی کہانی رقم

11۔
یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں

12۔
تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پھول ہے شرار ہیں تیری گلی کے لوگ

13۔
دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ
سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں

14۔
اس قدر بے رُخی سے بات نہ کر
دیکھ تو ہم کہاں سے آئے ہیں

15۔
کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے
ان کے گیسو بکھر گئے ہوں گے

16۔
قہقہے بے شعور لوگوں کے
کس قدر بار ہیں سماعت پر

17۔
اس دیارِ ستم ظریفاں میں
فرصتِ ہاؤ ہُو بہت ہے مگر

18۔
شوقِ آوارگی میں کیا نہ ہوا
ایک تیرا ہی سامنا نہ ہوا

19۔
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تَر دیکھا ہے

20۔
تری نگاہ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
تری نگاہ کے قابل ہمارا حال نہ تھا

21۔
اس شہرِ تیرگی میں نگاہِ خموش سے
شب دوستوں کو رقص کُناں دیکھتے چلو

22۔
اِک قیامت ہے جالب یہ تنقیدِ نَو
جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے

23۔
ہم کو نظروں سے گرانے والے
ڈھونڈ اب ناز اُٹھانے والے

24۔
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے
اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے

25۔
نہ وہ ادائے تکلم نہ احتیاطِ زباں
مگر یہ ضد کہ ہمیں اہلِ لکھنو کہیے

26۔
کہاں اب ان کو پکاریں کہاں گئے وہ لوگ
جنہیں فسونِ طرب موجِ رَنگ و بُو کہیے

27۔
غزل کی بات جو کرتا ہے کم نظر نقاد
اُسے بھی شیخ کا اندازِ گفتگو کہیے

28۔
کبھی کبھی تیری یادوں کی سانولی رُت میں
بہے جو اشک تو برسات ہو گئی پیارے

29۔
تری نگاہِ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

30۔
خامشی سے ہزار غم سہنا
کتنا دشوار ہے غزل کہنا

31۔
کسے خبر تھی ہمیں راہبر ہی لُوٹیں گے
بڑے خلوص سے ہم کارواں کے ساتھ رہے

32۔
وہ ملا تھا راہ میں اک شام کو
پھر اسے میں نے یہاں ڈھونڈا بہت

33۔
مرا قصور کہ میں ان کے ساتھ چل نہ سکا
وہ تیز گام مرا انتظار کیوں کرتے

34۔
موجِ نکہت اپنی قسمت میں نہ تھی
دور سے اس پھول کو دیکھا بہت

35۔
یہ زمانہ ہے شعر کا دشمن
اس زمانے کا کیا گِلا اے دوست

36۔
اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جائے گا

37۔
بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا رُسوا
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں

38۔
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ھُما کیا لکھنا

39۔
چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے
آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سو جائیں

40۔
جالبؔ ہوا قفس میں یہ راز آشکارا
اہلِ جنوں کے بھی تھے کیا حوصلے بلا کے

41۔
دکھ اٹھانے میں ہے کمال ہمیں
کر گیا فن یہ لازوال ہمیں

42۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی

43۔
میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے
آدمی اے خد، خدا نہ بنے

44۔
بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا

45۔
ہم جو اب تک اٹھا رہے ہیں ستم
شاید اپنا جگر ہے آہن کا

46۔
اب ملیں بھی تو نہ پہنچان سکیں ہم ان کو
جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا

47۔
وہ کنارِ جُو ملاقاتیں گئیں
ساتھ ان کے چاندنی راتیں گئیں
دل عجب قصوں میں اب ہے مبتلا
گیسو و رُخسار کی باتیں گئیں

48۔
بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پِٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ

49۔
میں بھی تری طرح سے آوارہ و بیکار
اڑتے ہوئے پتے مجھے ہمراہ لیے چل

50۔
ہم اُن نجوم کی تابش بھی چھین سکتے ہیں
بنا دیا ہے جنہیں فخرِ آسماں ہم نے