پروین شاکر کی غزلیں

پروین شاکر کی غزلیں

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
۔

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موجِ ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ ہے
۔

پھر ایک بار تجھی سےسوال کرنا ہے
نگاہ میں ترا منصب بحال کرنا ہے

لہو سے بینچ دیا اور پھر یہ طے پایا
اسی گلاب کو اب پائمال کرنا ہے

یہ غم ہے اور ملا ہے کسی کے دَر سے ہمیں
سو اس شجر کی بہت دیکھ بھال کرنا ہے

بھلا کے وہ ہمیں حیران ہے تو کیا کہ ابھی
اسی طرح کا ہمیں بھی کمال کرنا ہے

۔

اب اورجینے کی صورت نظر نہیں آتی
کسی طرف سے بھی اچھی خبر نہیں آتی

اس کے آس میں ہے دل کا حجرہء تاریک
وہ روشنی جو کبھی میرے گھر نہیں آتی

وہ مہرباں ہے تو محراب و بام تک نہ رہے
یہ دھوپ کیوں پسِ دیوار و دَر نہیں آتی

رہِ حیات میں اب کوئی ایسا موڑ نہیں
کہ جس کے بعد تری رہگزر نہیں آتی

قبولیت کی ہے ساعت تو اس کو مانگ ہی لیں
کہ یہ گھڑی کبھی بارِ دِگر نہیں آتی

سرائے خانہء دُنیا میں شام ہوتی ہے
مسافروں کو نویدِ سفر نہیں آتی

۔

مقتلِ وقت میں خاموشی گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح

ایک لمحے کو زمانے نے رضا پوچھی تھی
گفتگو ہونے لگی ظلِ الٰہی کی طرح

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوتی پشت پناہی کی طرح

اس نے خوشبو سے کرایا تھا تعارف میرا
اور پھر مجھ کو بکھیرا بھی ہوا ہی کی طرح
-

کچھ دیر میں تجھ سے کٹ گئی تھی
محور سے زمیں ہٹ گئی تھی

تجھ کو بھی نہ مل سکی مکمل
میں اتنے دکھوں میں بٹ گئی تھی

شاید کہ ہمیں سنوار دیتی
جو شب آ کر پلٹ گئی تھی

رستہ تھا وہی پہ بن تمہارے
میں گرد میں کیسی اَٹ گئی تھی

پت جھڑ کی گھڑی تھی اور شجر سے
اِک بیل عجب لپٹ گئی تھی
۔

رستے  میں مل گیا تو شریکِ سفر نہ جان
جو چھاؤں مہرباں ہو اُسے اپنا گھر نہ جان

تنہا ہوں اس لیے نہیں جنگل سے بھی مفر
اے میرے خوش گماں مجھے نڈر نہ جان

ممکن ہے باغ کو بھی نکلتی ہو کوئی راہ
اس شہرِ بے شجر کو بہت بے ثمر نہ جان

یاں اک محل تھا آگے زر و سیم سے بنا
اے خوش خرام! دل کو ہمارے کھنڈر نہ جان

دکھ سے بھری ہے لیک میسر تو ہے حیات
اس رنج کے سفر کو بھی بارِ دگر نہ جان

۔

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا

تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا

عجب تھا جرمِ محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا

ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا

عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا

ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا

۔

صیاد تو امکانِ سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مرے پَر کاٹ رہا ہے

اے چادرِ منصب ترا شوقِ گلِ تازہ
شاعر کا ترے دستِ ہنر کاٹ رہا ہے

جس دن سے شمار اپنا پنہ گیروں میں ٹھہرا
اس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے

کش شخص کا دل میں نے دکھایا تھا کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے

۔


سیرِ دُنیا کرے دل باغ کا دَر تو کھولے
یہ پرندہ کبھی پرواز کو پَر تو کھو لے

میں تو، تا عمر، ترے شہر میں رُکنا چاہوں
کوئی آ کر مرا اسبابِ سفر تو کھولے

خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا
پر وہ شہزادہ مری نیند کا دَر تو کھولے

پھول کچھ تیز مہک والے بھی اس بار کھلیں
آ کے برسات مرا زخمِ جگر تو کھولے

کتنی آنکھیں ہیں جو بھولی نہیں شب پیمانی
بانوئے شہر مگر لُطف کا دَر تو کھولے

۔

شہر کے سارے معتبر آخر اسی طرف ہوئے
جانبِ لشکرِ عدو، دوست بھی صف بہ صف ہوئے

جاں سے گزر گئے مگر بھید نہیں کھلا کہ ہم
کس کی شکار گاہ تھے کس کے لیے ہدف ہوئے

مشہدِ عشق کے قریب صبح کوئی نہیں ملا
وہ بھی جن کے ضامنی اہلِ قُم و نَجف ہوئے

اب تو فقط قیاس س راہ نکالی جائے گی
جن میں تھیں بشارتیں خواب تو وہ تلف ہوئے

خانہ بے چراغ بھی سب کی نظر میں آ گیا
تیرے قیام کے طفیل ہم بھی تو با شرف ہوئے

۔

تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسمِ بہار مرے گلستاں میں ہے

اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے

تابش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے

اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خزاں اثر
اور آج سارا باغ اُسی کی اَماں میں ہے

خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
اتنی تو سوجھ بوجھ مرے باغباں میں ہے

لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
سالارِ فوج اور کسی امتحاں میں ہے

ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
نیکی کا ہر حساب دلِ دوستاں میں ہے

حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
کشتی میں کوئی بات ہے یا بادباں میں ہے

اُس کا بھی دھیان جشن کی شب اے سپاہِ دوست
باقی جو ایک تیر عدو کی کماں میں ہے

بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر
یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

مسند کے اتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کھلے
وہ بے تعلقی جو مزاجِ شہاں میں ہے

ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تو سائباں میں ہے

۔

قریہء جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے

میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے

اُس سے اِک بار تو روٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے

اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک! خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
۔

عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ تِرا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں، آئے کوئی
۔

بعد مدت اسے دیکھا لوگو
وہ زرا بھی نہیں بدلا لوگو

خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو

اس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا لوگو

اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کسی وقت میں اپنا لوگو

دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اس نے دشمن بھی نہ سمجھا لوگو

رات وہ درد مرے دل میں اٹھا
صبح تک چین نہ آیا، لوگو

پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہوئی
ابر پھر ٹوٹ کے برسا لوگو
۔

ہمیں خبر ہے کہ ہوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں!
۔

چارہ گر ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے

مجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے

میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ
رُوح پر دستِ صبا ہو جیسے

یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے

سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے
۔

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں
۔


وہ عکسِ موجہء گل تھا چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اترا کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہو کے میرے فن میں رہا
کہ روح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دور بن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا!

۔

میں جب بھی چاہوں اُسے چھو کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا
۔

لمحاتِ وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے

خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بدگمان ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے

ملنا۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ۔ جدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نپٹ گئے

روئی ہوں آج کھل کے بڑی مدتوں کے بعد
بادل جو آسمان پہ چھائے تھے چھٹ گئے

کس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل
آئی ہوا تو کتنے ورق ہی اُلٹ گئے

شہرِ وفا میں دھوپ کا ساتھی کوئی نہیں
سورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے

اتنی جسارتیں تو اسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہوا کے کیسے گلے سے لپٹ گئے

دستِ ہوا نے جیسے درانتی سنبھال لی
اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے

۔

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا

تم موج موج مثلِ صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پَر، تم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو، انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر، تم کو اس سے کیا

ابرِ گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر، تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سِپر، تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر، تم کو اس سے کیا

۔

لو! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں، اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے، لیکن دل کا کیا کہنا

۔

چراغِ راہ بجھا کیا، کہ رہنما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اس کی میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا

اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں، رتجگا بھی گیا