انتخاب غزلیات از جاں نثار اختر

انتخاب غزلیات از جاں نثار اختر

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
جو آنسووں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے
بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے
میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں
تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
دبا کے آئی ہے سینے میں کون سی آہیں
کچھ آج رنگ ترا سانولا لگے ہے مجھے
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھیئے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے
حکایتِ غمِ دل کچھ کشش تو رکھتی ہے
زمانہ غور سے سنتا ہوا لگے ہے مجھے
۔۔۔۔۔

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
چپ چاپ سے سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
۔۔۔۔۔

ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر
عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر
ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر
حال کہنا ہو کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر
اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ہیں دل پر تری باتیں اکثر
۔۔۔۔

تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے
جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے
حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے
یہ دوستی یہ مراسم یہ چاہتیں یہ خلوص
کبھی کبھی یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے
اُفق پہ دور چمکتا ہوا کوئی تارا
مجھے چراغِ دیارِ حبیب لگتا ہے
نہ جانے کب کوئی طوفان آئے گا یارو
بلند موج سے ساحل قریب لگتا ہے
۔۔۔۔۔

اپنا کوئی ملے تو گلے سے لگائیے
کیا کیا کہیں گے لوگ اسے بھول جائیے
قدموں سے چل کے پاس تو آتے ہیں غیر بھی
آپ آ رہے ہیں پاس تو کچھ دل سے آئیے
ہم دھڑکنوں کے پاس ہیں دل کے قریب ہیں
ہے شرط یہ کہ ڈھونڈ کر ہم کو دکھائیے
مانا کہ اعتبار کے قابل نہیں کوئی
یہ جانتے ہوئے کبھی دھوکہ تو کھائیے
۔۔۔۔

ایک تو نیناں کجرارے اوراس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اُس کو بس کیا دیکھ لیا
پگ پگ اُس کے دل کی دھڑکن اُتری آئے پائل میں
پیاسے پیاسے نیناں اُس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے 'سوچے' ندیا بھر لوں چھاگل میں
صبح نہانے جوڑا کھولے، ناگ بدن سے آ لپٹیں
اُس کی رنگت، اُس کی خوشبو کتنی ملتی صندل سے
چاند کی پتلی نوک پہ جیسے کوئی بادل ٹِک جائے
ایسے اُس کا گِرتا آنچل اٹکے آڑی ہیکل میں
گوری اس سنسار میں مجھکو ایسا تیرا روپ لگے
جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
کھڑکی کی باریک جھری سے کون یہ مجھ تک آ جائے
جسم چرائے، نین جھکائے، خوشبو باندھے آنچل میں
پیار کی یوں ہر بوند جلا دی میں نے اپنے سینے میں
جیسے کوئی جلتی ماچس ڈال دے پی کر بوتل میں
آج پتہ کیا، کون سے لمحے، کون سا طوفاں جاگ اُٹھے
جانے کتنی درد کی صدیاں گونج رہی ہیں پل پل میں
ہم بھی کیا ہیں کل تک ہم کو فکر سکوں کی رہتی تھی
آج سکوں سے گھبراتے ہیں، چین ملے ہے ہل چل میں
۔۔۔۔

پلا ساقیا ! بادۂ خانہ ساز
کہ ہندوستاں پر رہے ہم کو ناز
محبت ہے خاک وطن سے ہمیں
محبت ہے اپنے چمن سے ہمیں
ہمیں اپنے صبحوں ، شاموں سے پیار
ہمیں اپنے شہروں کے ناموں سے پیار
ہمیں پیار اپنے ہر اک گاؤں سے
گھنے برگدوں کی گھنی چھاؤں سے
ہمیں پیار اپنی عمارات سے
ہمیں پیار اپنی روایات سے
ہمیں پیار ہے اپنی تہذیب سے
ہمیں پیار ہے اپنی ہر چیز سے
اٹھائے جو کوئی نظر کیا مجال
ترے رند لیں بڑھ کے آنکھیں نکال
سلامت رہیں اپنے دشت و دمن
رہے گنگناتا ہمارا گگن
نگاہیں ہمالہ کی اونچی رہیں
سدا چاند تاروں کو چھوتی رہیں
۔۔۔۔۔

زندگی تنہا سفر کی رات ہے
 اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
 کس عقیدے کی دہائ دیجئے
 ہر عقیدہ آج بھی بے اوقات ہے
 کیا پتہ پہنچیں گے کب منزل تلک
 گھٹتے بڑھتے فاصلوں کا ساتھ ہے
۔۔۔۔۔

ساز بے مطرب و مضراب نظر آتے ہیں
پھر بھی نغمے ہیں کہ بیتاب نظر آتے ہیں
وہی محفل ہے وہی رونق محفل لیکن
کتنے بدلے ہوئے آداب نظر آتے ہیں
کیا تماشا ہے کہ غنچے تو ہیں پژمردہ و زرد
خار آسودہ و شاداب نظر آتے ہیں
قافلہ آج یہ کس موڑ پہ آ پہنچا ہے
اب قدم اور بھی بیتاب نظر آتے ہیں
کل کرینگے یہی طغیان گل تر پیدا
آج جو لوگ کہ سیلاب نظر آتے ہیں
کل یہی خواب حقیقت میں بدل جائینگے
آج جو خواب فقط خواب نظر آتے ہیں
کون سا مہر درخشاں ہے ابھرنے والا
آئنے دل کے شفق تاب نظر آتے ہیں
مسکراتے ہوئے فردا کے افق پر اختر
ایک کیا سیکڑوں مہتاب نظر آتے ہیں
۔۔۔۔۔

زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
 کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
 کُوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے، چل کر دیکھیں
 کیا خبر کُوچۂ دلدار سے پیارا ہی نہ ہو
 دل کو چھو جاتی ہے رات کی آواز کبھی
 چونک اُٹھتا ہوں کہیں تم نے پُکارا ہی نہ ہو
 کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
 سوچتا ہوں تیرے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو
 زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
 درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
 شرم آتی ہے کہ اُس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
 نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
۔۔۔۔

بھولے نہ کسی حال میں آدابِ نظر ہم
مُڑ کر نہ تجھے دیکھ سکے وقتِ سفر ہم
اے حسن کسی نے تجھے اتنا تو نہ چاہا
برباد ہوا تیرے لئے کون؟ مگر ہم
جینے کا ہمیں خود نہ ملا وقت تو کیا ہے
لوگوں کو سکھاتے رہے جینے کا ہنر ہم
اب تیرے تعلّق سے ہمیں یاد ہے اتنا
اک رات کو مہمان رہے تھے تیرے گھر ہم
دنیا کی کسی چھاؤں سے دھندلا نہیں سکتا
آنکھوں میں لئے پھرتے ہیں وہ خوابِ سحر ہم
وہ کون سی آہٹ تھی جو خوابوں میں دھر آئی
کیا جانئے کیوں چونک پڑے پچھلے پہر ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔